روش کمار
سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے مہیش ویاس سے گفتگو کررہا تھا انہوں نے کہا کہ تنخواہ پر کام کرنے والے 1.8 کروڑ لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں چھوٹے کاروباری لوگ اپنے کاروبار سے محروم ہوگئے ہیں۔ دونوں کو ملایا جائے تو ان کی تعداد تقریباً 4 کروڑ ہوتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ماہ اپریل کے ہیں اس کے علاوہ 8 کروڑ ایسے لوگ ہیں جو اپنے ہنر کے دم پر یومیہ کماتے اور کھاتے تھے۔ کنٹراکٹ کی بنیاد پر کام کرتے تھے یا کنٹراکٹرس کے تحت کام کرکے کماتے تھے۔بحیثیت مجموعی ان تمام کی تعداد 12 کروڑ بنتی ہے۔ مئی میں لاک ڈاون کے بتدریج نرم پڑنے سے ان 12 کروڑ لوگوں میں سے دو کروڑ لوگوں کو پھر سے کام ملنے لگے ہیں۔ یعنی تب بھی 10 کروڑ لوگ بیروزگار ہوئے۔ یہ تعداد نہ تو چھوٹی ہے نہ تو معمول کے مطابق ہے۔ ایک کے پیچھے اگر آپ تین لوگ بھی جوڑلیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 40 کروڑ لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔
کتنے لوگوں کی تنخواہیں نصف یا آدھی ہوگئی ہیں۔ اس کا مہیش ویاس کے پاس کوئی حساب کتاب نہیں تھا، لیکن آپ اندازہ لگاسکتے ہیں اگر ایسے پانچ چھ کروڑ لوگ بھی ہوتے تو جملہ 50 ساٹھ کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی نوکری چلی گئی ہے جن میں سے بعض کی تنخواہ آدھی ہوگئی ہے اور جن کا کام چھن گیا ہے۔ ہماری آبادی کے 60 کروڑ لوگوں کا ان کی تین ماہ کی زندگی سے تعلق ٹوٹ گیا ممکن ہے کہ تب بھی ہمیں آس پاس میں ایسے لوگ نہ ملتے ہوں یا دکھائی دیتے ہوں جن کا کام بند ہوگیا ہے لیکن یہ تو اس وقت کی سچائی ہے۔ ہمارے آس پاس کے لوگ معاشی لحاظ سے ٹوٹ چکے ہیں کوئی پرانا راگ اور بدنیتی ہوتو اسے بھی بھول جائیں گے۔ جب سب کچھ ہی چلا گیا ہوتو کس بات کا غم اور کس بات کا رخ؟ کس بات کا حساب یا کس بات کا فیصلہ؟ معذرت خواہی کرلیجئے اور معاف کردیجئے۔ ایک ایسے وقت اور سماج میں جب سب کچھ غیر یقینی ہوگیا ہو منسوخ ہوگیا ہے اور ختم جیسا ہوگیا ہو اس وقت معاشرہ کی زبان کیا ہونی چاہئے میں لگاتار اس سوال پر سوچ رہا ہوں۔ سماجی اخلاق کی زبان پہلے کی طرح نہیں ہوسکتی ہے اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں نئے سرے سے اپنے جملوں کو جوڑنے کی ضرورت ہوگی۔ ہمارا کیا ہوا کچھ بھی اس طرح نہ ہو جس سے یہ 60 کروڑ لوگ اور بے گھر ہو ہو جائیں گے۔ ان کا ذہنی دباؤ مزید گہرا ہو جائے۔ غصہ آنے لگے۔ طنز اور اس کی ڈوری کو لے کر بھی بہت زیادہ محتابط رہنا ہوگا۔ اس کے لئے سوچ بدلنے کی ضرورت ہوگی۔ اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور پہچان والوں یا پھر کسی انجان سے بھی بات چیت کرتے وقت زیادہ محتاط رہیں۔ آپ کی گرمجوشی اور آپ کا پیار کسی میں جان ڈال دے گی اس طرح جس طرح مرجھائے پودے میں کھاد ڈالنے کے بعد چھوٹا سا سبز پتہ نکل آتا ہے۔
ایک ایسی زبان کی تخلیق کی ضرورت ہے جو سب کو مساویانہ مقام عطا کرے، سب کو فطری شکل میں قبول کرے محسوس ہوکہ کوئی اپنا رہا ہے مجروح نہیں رہا ہے۔ اس زبان میں سننے کی صلاحیت زیادہ ہو کہنے کی تھوڑی کم، شاید کوئی چاہتا ہوگا کہ اس حالت میں کوئی نیا بولے یا کیسے سمجھ سکے اس کی باتوں کو قبول کرسکے۔ ہم سب کی آپس کی زبان کچھ ہونے کا فخر یا کچھ نہ ہونے کے احساس کمتری سے پاک ہو سہارا دیتی ہو کسی کو کندھا دیتی ہو، کوئی بہت غصہ میں ہوتو سن لیجئے کوئی بے چین ہوتو سن لیجئے یہ وقت کم سے کم برا ماننے کا ہے، زبان صرف زبان پر بڑھتی جانے والی چیز نہیں ہے ۔ اس میں آپ کا پہننا اور اوڑھنا بھی شامل ہے۔ میں نہیں کہتا کہ اخلاقی اقدار کا ماحول پیدا کرنا چاہئے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سادگی ہونی چاہئے جس سے کسی کو کمتر ہونے کا احساس نہ ہو اور نہ کسی کو بہتر ہونے کا زعم ہو۔ پتہ نہیں میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں لیکن کئی مرتبہ لگ رہا ہے کہ اس وقت ہمیں ایک نئی عوامی زبان تخلیق کرنی چاہئے۔ یہ آئیڈیا آیا ان لوگوں کی تصاویر کو دیکھ کر جو ملک کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں جن کا کوئی نام نہیں ہے جن کے پاس زیادہ جائیداد نہیں ہے، لیکن وہ سڑکوں پر ہے۔ لوگوں کو کھانا کھلارہے ہیں پیسے دے رہے ہیں یہ کتنے اچھے لوگ ہیں اُن لوگوں نے اس وقت میں ایک نئی زبان بنائی ہے۔ معاشرہ کے خیال کی زبان۔ ان کے کام میں وہ خیال تھا کہ کوئی بھوکا نہ رہے بھلے ہی ہمارا بینک بیالنس کچھ کم ہو جائے۔ ہم کبھی ان بے شمار اچھے لوگوں کا احترام نہیں کر پائیں گے، شکریہ ادا نہیں کرپائیں گے اور نہ کسی حساب میں درج کر پائیں گے۔ پھر بھی ان لوگوں نے کام کیا ان کے بے غرض کام کی تصاویر دیکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہی نئی زبان ہے۔ اس نئی زبان میں ممکنات ہیں۔ ہم سب کو عوامی اور انفرادی شکل میں بولی جانے والی زبان پر غور کرنا چاہئے۔
یہ نئی زبان بغلگیر کرنے والی ہو مجروح کرنے والی نہ ہو۔ یہ وقت ہمیں ایک موقع عطا کررہا ہے۔ ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران زبان میں جس جارحیت کو جگہ دی ہے اسے وداع کردینے کا وقت آیا ہے کسی اچھے اور نرم گو شاعر کی طرح بولنے کی روایت قائم ہو۔ میں ان دنوں جب تک کنور نارائن کی شاعری پڑھنے لگتا ہوں پتہ نہیں کہ یوں مجھے لگتا ہے کہ یہ شاعر نئی زبان کے دروازے تک لے جاسکتا ہے۔ ان کی زبان عاجزی اور گمنام رہنے کی مشق کراتی ہے۔ کاش ہماری ریاست اور معاشرہ سب مل کر کسی شاعر کی زبان کو عوامی شکل سے قائم کرتے کتنا اچھا ہوگا۔ ہمارے آپ کے پاس کم ہوتا لیکن ہم اور آپ خود کو کمتر محسوس نہ کرتے۔
نیوز چیانلوں نے زبان کے عوامی وقار کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ پہلے یہ الزام سیاست اور سیاست کرنے والوں پر عائد کیا جاتا تھا، لیکن چیانلوں کی زبان نے زبان کے شعبہ کے عوامی وقار کو کچل دیا ہے۔ میں اس میں کسی کو بری نہیں مانتا جب پہلی بار کہا تھا کہ ٹی وی مت دیکھئے تو ہوا میں نہیں کہا تھا میں دیکھ رہا تھا کہ چیانل زبان کو تباہ کررہے ہیں۔ ایک ایسی زبان کی تخلیق کررہے ہیں جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ کے بچے ویسی زبان استعمال کریں۔ آپ بھی کتنا بدل گئے۔ آپ خود عوامی مقامات پر لکھی گئی اپنی زبان کو دیکھئے اس لئے نیوز چیانلوں کو دیکھنا بند کردیجئے۔ ان میں ویسے بھی خبریں نہیں ہوتی ہیں۔ اکھاڑہ ہوتا ہے وہی جو ٹوئٹر کی ٹائم لائن میں نہیں ہوتا ہے۔
میں کیوں اس بات پر بار بار لوٹ کر آتا ہوں کہ نیوز چیانل نہ دیکھیں ۔ شاید اس لئے چیانلوں کی صحافت میں اچھے لوگ ہیں مگر چند استثنیٰ کے سہارے آپ شہر کے سارے غنڈوں کو دیوتا قرار نہیں دے سکتے۔ یہ میڈیم ایسا ہی رہے گا اس لئے آپ اسے چھوڑ دیں یہ چیانلس آپ کی زبان ختم کررہے ہیں۔ آپ کی سماجیت ختم کررہے ہیں۔ آپ خود میری باتوں کی جانچ کیجئے، جب آپ ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں میں نہیں کہتا کہ بناء جانچ کے میری بات مان لیں۔ اگر آپ خود کو اپنے خاندان کو دوسروں سے اچھا مانتے ہیں تو اس میں سب سے بڑا حصہ آپ کی اس زبان کا جواب نہیں ہے۔ بے شک اس زبان میں کئی صحافیوں کی جڑیں پیوست تھیں۔ جہاں کہیں ہمیں یا آپ کو ان جڑوں سے زبانوں کو آزاد کرانا تھا الٹے آپ اُن میں قید کردیئے گئے۔ آپ کو لگتا ہوگا کہ ہے لیکن وہ آپ کی سوچ اور آپ کی تحریر سے جاچکی ہے۔ آپ جب نیوز چیانلوں سے دور رہیں گے واٹس ایپ کی زبان سے دور رہیں گے تو یقین جانئے آپ میں کچھ اچھی تبدیلی آئے گی آزما کر دیکھ لیں۔