نیپال میں بھی بوڑھے سیاستدانوں کو ہٹانے کے مسئلہ پر انقلاب

   

روش کمار
بی جے پی میں مودی اینڈ کمپنی نے ایک ایسا اصول متعارف کروایا جس کے ذریعہ عمر کی 75 بہاریں دیکھ چکے قائدین کو ان کے گھروں کو واپس کردیا گیا۔ ایسے قائدین میں وزیراعظم نریندر مودی کے سیاسی گرو سیاسی اتالیق (بلکہ ان کے محافظ) ایل کے اڈوانی نمایاں ہیں جو مودی جی کے باعث ہی گوشہ گمنامی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ بہرحال 75 سال کی عمر عبور کرنے والے قائدین کو سرگرم سیاست سے سبکدوش کرنے والے بی جے پی کا اصول فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ مودی جی پر لاگو نہیں ہوگا ویسے بھی اس طرح کا اصول ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں بھی لاگو کرنے کی کوشش کی گئیں۔ 70 سال کی عمر میں سیاست سے سبکدوش ہونے کا مسئلہ نیپال میں بھی چل رہا تھا اور یہ بھی عوامی برہمی اور احتجاج کے پیچھے کارفرما کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ رہی اس کا تعلق نیپال کے عوام کی اس بے چینی سے بھی ہے جو اس بات سے بیزار ہوچکی تھی کہ نیپال میں تین ہی لوگ باری باری سے وزیراعظم بنے جارہے ہیں۔ اقتدار کی کرسی ان ہی کے درمیان گھومتی جارہی ہے۔ ایسی ہی باتیں کچھ دن قبل ہمارے ملک میں بھی ہوئیں کہ وزیراعظم نریندر مودی جب 17 ستمبر کو 75 سال کے ہوجائیں گے کیا مارگ درشن منڈل میں جائیں گے؟ خیر اب آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ان قیاس آرائیوں کو ختم کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہیکہ وہ 75 سال کی عمر میں سبکدوش نہیں ہوں گے نہ ہی کسی اور کو سبکدوش ہونے کیلئے کہیں گے۔ وہ 80 سال کے بھی ہوجاتے ہیں اور سنگھ انہیں شاکھا چلانے کیلئے کہتا ہے تو وہ ضرور ایسا کرتے رہیں گے۔ ہم اور آپ اس بات سے انجان ہی رہے کہ ہمارے ملک کے پڑوس نیپال میں بھی عمر کو لیکر کچھ ایسی بحث چل رہی تھی خود کو 70 سال عمر کے بعد بھی اقتدار پر برقرار رکھنے کیلئے کے پی شرما اولی ایک طرف اپنی پارٹی میں ہی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے تھے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرکے جمہوریت کو کچل رہے تھے۔ یہ دونوں ہی واقعات 6 سے 8 ستمبر کے درمیان ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں 9 ستمبر کو نیپال افراتفری کا شکار ہوجاتا ہے۔ کے پی شرما اولی پارٹی کو کنٹرول کرنے کی سیاست دنیا کی کس کتاب کو دیکھ کر سیکھ رہے تھے اس کا پتہ لگایا جانا چاہئے لیکن جب عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے تب بھی یہ سوال اٹھا کہ وہ 70 سال سے زائد عمر کے ہیں۔ انہیں وزیراعظم نہیں بننا چاہئے۔ کے پی شرما اولی بھی چار مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے نیپالی کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور اتحاد کی شرائط کے مطابق اگلے 10 ماہ بعد نیپالی کانگریس کے قائد شیر بہادر دیوبا وزیراعظم بننے والے تھے۔ ان کی عمر 80 سال کی ہوچکی ہے۔ دیوبا بھی 5 بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی ماوسٹ سنٹر کے پشپ کمل چنڈا بھی تین مرتبہ نیپال کے وزیراعظم رہ چکے ہیں تو یہ ایک میوزیکل چیر کا کھیل چل رہا تھا نیپال میں۔ نیپال کے وزیراعظم کا عہدہ ان ہی تین لوگوں کے درمیان باری باری سے گھوم رہا تھا۔ 8 ستمبر کو GEN-Z کے مظاہرہ کو لیکر سب بات کررہے ہیں لیکن ایک دن قبل 7 ستمبر کو کے پی شرما اولی نے کیا کہا اسے آپ نظرانداز نہیں کرسکتے۔ خود کو اقتدار کی کرسی پر بٹھائے رکھنے کیلئے دستور ہی بدل دیا گیا۔ اس سے پہلے سی پی ایم یو ایم ایل نے اپنی پہلے اجلاس عام میں طئے کیا تھا کہ 70 سال پار کرتے ہی کوئی بھی فرد پارٹی کے کسی بھی عہدہ پر برقرار نہیں رہے گا۔ اولی نے اصول بدل دیا۔ اسی اصول پر روک لگا کر وزیراعظم بنے تھے کیونکہ تب ان کی عمر 70 سے زیادہ ہوچکی تھی۔ پارٹی کے مجلس عاملہ ان کے کنٹرول میں تھی اور مرکزی کمیٹی نے اولی کو اس اصول سے چھوٹ دے دی۔ 7 ستمبر کے اجلاس میں اس اصول کو ہی بدل دیا گیا اس کے بعد کے پی شرما اولی پارٹی کا تیسری بار لیڈر بن سکتے ہیں اور وزیراعظم کی میعاد بھی پوری کرسکتے تھے۔ یہی نہیں پارٹی پر کنٹرول برقرار رہے اس کیلئے اولی نے پارٹی کی اہم باڈی میں ارکان کی تعداد گھٹادی اور پارٹی رکنیت کیلئے نیا زمرہ بنایا۔ پارٹی نے اپنا انتخابی نشان بھی بدل دیا۔ اس اجلاس میں کے پی شرما اولی نے کہا کہ ان کی پارٹی ہنومان کی طرح ہے۔ تمام کو ان کی پارٹی کی تائید و حمایت کرنی چاہئے تو ایک طرح سے اولی عوام کے جذبات و احساسات کا مذاق اڑاتے تھے اس لئے سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف جو احتجاجی مظاہرہ ہوا اس کے پیچھے 70 سال کی عمر والا موضوع بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہمالیہ پریس نام کے ایک آن لائن نیوز پورٹل پر ہمیں ایک مضمون ملا اس میں بتایا گیا ہے کہ کے پی شرما اولی نے اپنے لئے تو عمر کی پابندی ہٹادی مگر ان کی اپنی پارٹی میں برسوں سے نوجوان لیڈروں کے دو الگ الگ زمروں پر عمر کی شرط عائد کردی۔ پارٹی کے طلبا ونگ میں کوئی بھی 32 سال سے زیادہ عمر کا لیڈر نہیں رہ سکتا تھا اور یوا سنگھ میں 40 سال کے بعد کسی عہدہ پر نہیں رہ سکتا۔ اس تبدیلی سے ان تنظیموں کے درجنوں لیڈران نااہل ہوگئے۔ نیپال کی سابق صدر ودیا دیوی بھنڈاری بھی سیاست میں آنا چاہتی تھیں اسے لیکر بحث چل رہی ہے کیونکہ صدر بننے کے بعد پارٹی کی رکنیت چھوڑنی پڑتی ہے۔ اولی نے یہ بھی اصول بنادیا کہ صدر رہا کوئی بھی فرد پارٹی کی رکنیت نہیں لے سکتا۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا کہ 73 سال کے ہوچکے اولی اگلے دس ماہ تک وزیراعظم رہیں گے اور ان کے بعد 80 سال کے ہوچکے شیر بہادر دیوبا وزیراعظم بنیں گے۔ تویہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ نیپال میں جو بھی ہوا اس کے پہلے اور اس وقت وہاں کیا چل رہا تھا۔ نیپال سے باہر کی طاقتوں کا اس میں کردار ہوسکتا ہے اس پر بھی بات ہورہی ہے لیکن نیپال کے اندر کی جو وجوہات رہی ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سیاستدانوں کا اقتدار پر اتنا کنٹرول ہوگیا کہ عوام کے درمیان اداروں اور میڈیا کے تئیں بھروسہ ٹوٹنے لگا۔ سنٹرل بزنس پارک کی عمارت میں آگ لگادی گئی۔ اس عمارت میں کانتی پور ٹائمز، کھٹمنڈو پوسٹ دونوں کا دفتر تھا۔ کانتی پور ٹی وی کا اسٹوڈیو پری طرح نذرآتش کردیا گیا۔ کانتی پور ٹائمز اور کھٹمنڈو پوسٹ دونوں نے اپنے اداریوں اور پروگرامس میں 8 ستمبر کی فائرنگ کے بعد کے پی شرما اولی کے استعفے کی مانگ کی تھی وہ بھی واضح الفاظ میں۔ 2006ء میں جمہوریت کو لیکر نیپال میں جو تحریک یا مہم چلائی گئی اس میں کانتی پور کا اہم کردار تھا لیکن جیل سے باہر آئے سابق وزیرداخلہ اور صحافی روی لامی شاہ کانتی پور کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ روی لامی نے پرچنڈہ حکومت میں وزیر تھے اور سرکاری گھوٹالے میں جیل گئے۔ اس عمارت میں بنک اور وکیلوں کے دفاتر تک جلادیئے گئے ہیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے میڈیا یا اس کو یا کسی دفتر کو اس طرح جلادینا صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ نیپال میں احتجاج کیوں ہوا؟ ہندوستان میں بیرونی سازشوں پر زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے اور کہا جارہا ہیکہ بیرونی طاقتوں کی سازشوں کی وجہ سے نیپال میں حالات خراب ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ اس میں کس ملک کا ہاتھ ہوگا۔ اگر ہندوستان میں اس کی زیادہ گونج سنائی دے رہی ہے تو پھر نام کے ساتھ ٹھوس ثبوت کے ساتھ اسے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے کہ یہ کس ملک کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں سارک نام کی ایک تنظیم ہوا کرتی تھی اس کا کیا ہوا۔ مارچ کے ماہ میں جب نیپال میں تحریک شروع کی گئی تب کہا گیا راج شاہی واپس لانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ ہمالیہ پتریکا نے اس احتجاج میں آئے لوگوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ زیادہ تر لوگ تینوں سیاسی جماعتوں کی بدعنوانیوں سے پریشان تھے۔ دعوے کے ساتھ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن لگتا ہے کہ اپنی پارٹی میں کنٹرول بڑھائے جانے کی کوشش کے ساتھ کے پی شرما اولی کے خلاف ان کی پارٹی کے قائدین اور کارکنوں اور حامیوں کی قربت GEN-Z تحریک سے بڑھنے لگی۔ اس وقت پورے نیپال میں کرفیو لگادیا گیا ہے۔ وہاں کے میڈیا میں رپورٹ ہورہا ہے کہ GEN-2کی طرف سے کچھ نمائندوں نے فوجی سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ فوجی سربراہ نے ان سے کہا ہیکہ وہ احتجاجی مظاہرین اور صدر کے درمیان بات چیت کروانے کی کوشش کریں گے۔