وائس آف امریکہ کے بنیادی آپریشنز 83 سال بعد بند کردیئے گئے

   

اپنے عروج پر یہ ریڈیو، ٹی وی اور ڈیجیٹل خبروں کو 48 زبانوں میں تیار کرتا تھا، 360 ملین سے زائد سامعین

واشنگٹن، 2 ستمبر (یو این آئی) وائس آف امریکہ نے 83 سال بعد اپنے بنیادی آپریشنز اس ہفتے باضابطہ طور پر بند کر دیے ۔ لیبر ڈے کی طویل تعطیلات کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر منگل کے روز (آج) پچھلی چھنٹیوں کے باوجود باقی بچ جانے والا اسٹاف بھی ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوگا۔ امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کیلئے ٹرمپ کی مقرر کردہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کَری لیک نے اپنے بیان میں اس برطرفی کا اعلان کیا، جسے باضابطہ طور پر ریڈکشن اِن فورس کہا گیا ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ ہم یہ آر آئی ایف صدر کی ہدایت پر کررہے ہیں، تاکہ وفاقی بیوروکریسی کو کم کیا جا سکے ، ایجنسی کی خدمات کو بہتر بنایا جا سکے اور امریکی عوام کے محنت سے کمائے گئے پیسے میں مزید بچت ہو سکے ۔ 1942 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران قائم ہونے والا وی او اے امریکی بین الاقوامی نشریات کا سب سے بڑا اور پرانا ادارہ تھا، اپنے عروج پر یہ ریڈیو، ٹی وی اور ڈیجیٹل خبروں کو 48 زبانوں میں تیار کرتا تھا اور ہفتہ وار 360 ملین سے زائد عالمی سامعین تک پہنچتا تھا۔ ایک سابق ملازم نے کہا کہ وی او اے صرف ایک میڈیا ادارہ نہیں تھا، اس نے لاکھوں لوگوں کو قابلِ اعتماد اور حقائق پر مبنی خبروں تک رسائی دی، اکثر ایسے ممالک میں جہاں ایسا ممکن ہی نہیں تھا، میں سمجھ نہیں سکتا کہ اسے کیوں بند کیا گیا۔ کئی ملازمین، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی برطرفیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہے اور انہیں عوامی بیانات دینے سے منع کیا گیا ہے ۔ ایک ملازم نے بتایا کہ زیادہ تر برطرف ہونے والے زبان کے ماہرین تھے ، جن کیلئے امریکی میڈیا انڈسٹری میں روزگار کے امکانات نہایت محدود ہیں۔ سابق ملازم نے مزید کہا کہ اور بہت سے لوگوں کیلئے اب نئے ہنر سیکھنے میں بھی ’بہت دیر‘ ہو چکی ہے ۔ برطرف ہونے والوں میں تقریباً 100 پاکستانی صحافی اور عملے کے ارکان شامل تھے ، جو وی او اے کی اُردو اور پشتو سروسز میں کام کرتے تھے ، دیگر افراد ویتنامی، مینڈارن، روسی، فارسی اور درجنوں دیگر زبانوں کے شعبوں سے تعلق رکھتے تھے ، جنہوں نے سرد جنگ اور اس کے بعد کے عرصے میں وی او اے کو امریکی عوامی سفارتکاری کا ایک اہم ہتھیار بنایا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس سال کے اوائل میں وی او اے کے آپریشنز کو بتدریج ختم کرنا شروع کردیا تھا، تقریباً تمام اسٹاف کو مارچ میں انتظامی چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔ مئی میں تقریباً 600 کنٹریکٹرز کو فارغ کر دیا گیا تھا، اور باقی ماندہ ملازمین کو جون میں برطرفی کے نوٹس موصول ہوئے تھے ، ان نوٹسز میں سے کچھ وقتی طور پر کاغذی غلطیوں کی وجہ سے واپس لے لیے گئے تھے ، لیکن یو ایس اے جی ایم نے واضح کر دیا تھا کہ مستقل بنیادوں پر آر آئی ایف ناگزیر ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مالی بچت سے زیادہ سیاسی محرکات رکھتا ہے ۔ وی او اے کی وائٹ ہاؤس کیلئے سابق بیورو چیف اور انتظامیہ کے خلاف جاری مقدمے کی ایک مدعیہ پیٹسی وڈاکسوارا نے کہا کہ یہ پیسہ بچانے کے بارے میں نہیں ہے ، یہ آزاد صحافت کو خاموش کرانے کے بارے میں ہے ، جو انتظامیہ کی سوچ کے مطابق نہیں چلتی۔
گزشتہ ہفتے ایک وفاقی جج نے اس مؤقف کے کچھ حصوں کی تائید کی تھی۔ امریکی ڈسٹرکٹ جج رائس لیمبرتھ نے لیک کی یہ کوشش روک دی تھی کہ وہ وی او اے کے ڈائریکٹر مائیکل اَیبرا مووٹز کو برطرف کر سکیں، اور قرار دیا تھا کہ انہیں ایسا کرنے کا قانونی اختیار حاصل نہیں۔ اَیبرا مووٹز کو اس وقت انتظامی چھٹیوں پر بھیجا گیا تھا، جب انہوں نے شمالی کیرولائنا میں واقع ایک ریموٹ ٹرانسمیشن سہولت میں تبادلے سے انکار کیا تھا۔ جج نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ لیک اور ان کے 2 اعلیٰ معاونین ستمبر کے وسط تک حلفیہ بیانات دیں، اور خبردار کیا کہ مزید عدم تعاون کی صورت میں انہیں توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔