روش کمار
کیرالا کے وائناڈ کا سانحہ صرف کیرالا کی خبر نہیں ہیں ہماچل پردیش اور اُتراکھنڈ کیلئے بھی خبر ہے جہاں سیلاب اور مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں اور ان ریاستوں کے لئے بھی جہاں کے مزدور کیرالا کام کرنے گئے ہیں اور اپنا گذر بسر کررہے ہیں ۔ بہار ، مغربی بنگال ، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ سے بھی لوگ یہاں کمانے کیلئے آتے ہیں ۔ اگسٹ 2019 ء میں وائناڈ کے پوتھو ملا میں پہاڑ کھسکنے کا سانحہ پیش آیا جس میں 18 لوگوں کی موت ہوگئی اور 5 لوگوں کا کبھی پتہ نہیں چلا ۔ وہ واقعہ بھی موجود سانحہ کے پاس کے علاقہ میں پیش آیا تھا ، اس زمینی تودے کھسکنے میں ان بستیوں میں مکانات کی دو قطاریں دھنس گئیں یا لاپتہ ہوگئیں جہاں دوسری ریاستوں سے آئے مزدور رہا کرتے تھے ۔ مرنے والوں کی سرکاری سطح پر جو تعداد بتائی گئی ہے وہ 300 سے زائد ہوگئی ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 360 تک پہنچ گئی ہے ۔ اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ تقریباً 200 لوگ لاپتہ ہیں ۔ نعشوں کی شناخت مشکل ہوگئی ہے ۔ اب تک برآمد ہوئی نعشوں میں ایک ویشالی بہار کی مزدور پوجا کماری دیوی کی پہچان ہوگئی ہے ۔ سادھو پاسوان ، رجیت کمار اور وجنیش پاسوان ابھی تک لاپتہ ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ چول ملا منڈکئی گاؤں اور اٹل ملا میں بڑے بڑے باغات ہیں جہاں پر بہار و اُترپردیش سے آنے والے مزدور کام کرتے ہیں۔ کیرالا کے محکمہ صحت کے مطابق 380 ایسے مزدور اور اُن کے خاندان ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں جو اس لینڈ سلائیڈ سے متاثر ہوئے ہیں ۔
ڈرون کیمرہ کی مدد سے آپ دیکھتے ہیں کہ وائناڈ کی پہاڑی کے اوپر الائچی ، کالی مرچ اور چائے کے باغات کتنے خوبصورت لگتے ہیں ۔ یہاں کے مقامی مسلمان خلیجی ممالک میں کام کرنے گئے اور عیسائی یوروپی ملکوں میں ، اس وجہ سے اس گاؤں کے مکانات سے خوشحالی جھلکتی ہے لیکن سچائی کچھ اور بھی ہے ۔ ان باغات میں مزدوری کرکے جینے والے زیادہ لوگ ہیں ۔ان میں مسلمان بھی ہیں ، عیسائی اور ہندو بھی ہیں اور دوسری ریاستوں سے آئے مزدور بھی ۔ 2 ا گسٹ کی دی ہندو میں رپورٹ ہے کہ یہ خطرہ ہے کہ مہلوک مزدوروں کی گنتی نہ ہوسکے ۔ مقامی زبان میں ان مزدوروں کی بستیوں کو باڑی کہا جاتا ہے جو باڑہ میں بہہ گئیں۔ وائناڈ کے باغات میں جھارکھنڈ ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے مزدور کام کرتے ہیں ، مغربی بنگال اور بہار کے بھی ۔ اسی لئے مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی نے اپنے ارکان پارلیمان کیلئے وائناڈ کا دورہ کرنے کا حکم دیا ۔
کیرالا میں ایک ادارہ ہے سنٹر فار مائیگریشن اینڈ انکلوثیو ڈیولپمنٹ اس کے ذمہ دار ونئے پیٹر کا دی ہندو میں بیان شائع ہوا ہے کہ ان مزدوروں سے ہی پتہ چلے گا کہ جہاں زمینی تودے کھسکنے کے واقعات پیش آئے وہاں اور کتنے مزدور کام کررہے تھے یا رہ رہے تھے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کا اُن لوگوں سے تعلق ہوکہ کتنے لاپتہ ہیں اور کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے ۔ اس کیلئے ان مزدوروں کا ابھی وہاں ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس سے متاثرہ مزدوروں کی کیا حالت ہے کس طرح کے ناموافق حالات میں وہ کام کرتے ہیں یہ بھی پتہ چلنا ہے ۔ ان کے بارے میں معلومات کا ذریعہ دوسرے مزدور ہی ہیں ۔
وائناڈ میں دوسو لوگ لاپتہ ہیں ، واقعہ کے پانچویں دن بعد بھی لوگوں کو اُمید ہے کہ کچھ اچھی خبر آجائے گی یا کرشمہ ہوجائے گا ۔ کوئی اپنے بچے کی تلاش کررہا ہے ، کوئی بچہ اپنے ماں باپ کی تلاش میں مصروف ہے ۔ مرنے والوں کی جملہ تعداد 300 سے زیادہ ہے ۔ لاپتہ لوگوں کے بارے میں آہستہ آہستہ اُمیدیں کم ہوتی جارہی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے کہا جارہا ہے بچاؤ کاری کے کام مکمل ہوچکے ہیں ، جن نعشوں کی شناخت نہیں ہوپائی یا صرف جسمانی اعضاء ہی ملے ہیں حکومت نے اُن تمام کو دفنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ 4 اگسٹ کو تمام نعشوں کو دفنایا گیا ، ان میں سے کسی کا ہاتھ ہے تو کسی کا صرف پاؤں ہے یا جسم کا کوئی ایک حصہ ۔ ان سبھی کو ایک نمبر دیا گیا ہے ۔ پنچایت یا نگر پالیکا کے عہدیداروں کی موجودگی میں دفنانے کی
کارروائی پوری کی جارہی ہے تاکہ انتظامیہ کے پاس اس کا سارا ریکارڈ رہے ۔ ایسی عام قبروں میں دفن کے دوران ہی بین مذہبی دعائیہ اجتماع ہوتا ہے ۔ یہاں سے کانگریس کے رکن اسمبلی ٹی صدیقی کا کہنا ہے کہ مرنے والوں اور لاپتہ ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہوسکتی ہے ۔ جن لوگوں نے اپنا سارا خاندان کھودیا ان کیلئے اس سانحہ کے صدمہ سے باہر آنا زندگی بھر کیلئے مشکل ہوگا۔ زندگی بسالینے کی بات تو دور راتوں کی نیند اُڑ جائے گی اور ہر بارش اُنھیں پریشان کرے گی ۔ ہم اکثر ان کی بازآبادکاری کی بات کرتے ہیں لیکن ایسے حالات کے شکار لوگوں کے ذہنی صدمہ کا خیال نہیں رہتا ۔
ذہنی یا دماغی سطح پر اُنھیں ایک طویل وقت تک مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیرالا حکومت کے شعبہ صحت نے اس سانحہ کی سنگینی کو ذہن میں رکھتے ہوئے 160 کونسلرس متعین کئے ہیں جو کیمپ اور گھروں میں لوگوں سے رابطہ قائم کریں گے ۔ حکومت نے نگہداشت صحت کی سہولتیں فراہم کرنے پورے سال کا منصوبہ بنایا ہے ۔ جن خاندانوں میں صرف خواتین بچ گئیں ہیں اُن کی جدوجہد الگ ہوجاتی ہے ۔ ان تمام کیلئے بارش اور ایمبولینس کے سائرن کی آواز کا مطلب ہمیشہ کیلئے بدل چکا ہے۔ اپنے گھروں کو اس حال میں دیکھنا آسان نہیں ۔ یہاں سے دور بسانے کے بعد بھی یہ لوگ اس سانحہ کے بھیانک اثرات سے کبھی دور نہیں جاسکیں گے ۔ جب ہمارا آپ کا دھیان ہمیشہ کیلئے وائناڈ سے ہٹ جائے گا تب اُن کی جدوجہد اکیلے کی ہوجائے گی ۔
2018 ء میں کیرالا کے سیلاب میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے لوگوں کے خاندانوں کا کیا ہوا ۔ ان لوگوں کے ذہنوں میں سیلاب اور مٹی کے تودے کھسکنے کے مناظر دن رات پھرتے رہیں گے ۔ بہنیں ، بہنوں کے شوہروں گھر کے دیگر بزرگ اور ان کے خاندان سب کی موت ہوچکی ہے ۔ نیوزمنٹ میں شرف الدین کا بیان شائع ہوا ہے کہ شروع میں ہم آہ و زاری کررہے تھے لیکن اب ہم سکتہ میں آگئے ہیں۔ کیرالا کے چیف منسٹر پنا رائے وجین نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وائناڈو کی آفات کو قومی آفات قرار دیں۔
بھارت میں حالیہ عرصہ میں وائناڈ جیسی زمینی تودے کھسکنے کا سانحہ نہیں ہوا ۔ اس کا اثر بہت زیادہ گہرا ہوا ہے ۔ حکومت کے قائم کردہ کیمپوں میں ایک ہزار سے زائد متاثرین قیام کئے ہوئے ہیں اور وائناڈ میں تین ہزار ڈرون کیمرہ سے آپ کو جو نظر آئے گا ، مثال کے طورپر چلیار ندی کی ذیلی ندی اِر واز ندی ہے اسی کے کنارے کئی گاوں بسے ہیں ۔ اِرواز ندی کی لہر عام طورپر کافی پتلی ، معمول کے مطابق تھی اور اس کا اثر کافی سست تھا ۔ یہ ندی یہاں سے 25 کیلومیٹر دور چلیار ندی میں جاکر ملتی ہے ۔ سانحہ کی رات تیز بارش سے اس ندی کا پانی بھی بڑھ گیا اور پھیل گیا ۔ پہاڑی کے دھنسنے سے چٹانو کے بڑے ٹکڑے نیچے آگے اور کنارے بسے مکانات کو زمین دوز کردیا ، یہ سب اتنا کم وقت میں ہوا کہ پرسکون انداز میں بہنے والی اِرواز ندی کی رفتار میں بھی شدت آگئی ۔ اس ندی کی تیز لہروں نے نعشوں کو بہاکر 25 کیلومیٹر دور بہنے والی چلیار ندی تک لے گئی ۔
منڈاکٹی چرلا میں ندی کے کنارے کنارے گھر اور عمارتیں کھڑی تھیں۔ تین گاؤں کے مکانات اور دوسرے سامان کا ملبہ آدھا کیلومیٹر تک بہہ گیا ۔ 169 کیلومیٹر لمبی چلیار ندی کیرالا کے تین اضلاع ملاپورم ، کوئیکوڈ اور وائیناڈ کیلئے زندگی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اب وہی ان کے سب سے بڑے غم کا باعث بن گئی ہے ۔ ندی سے ملنے والی نعشوں اور نعشوں کے اعضاء کی تعداد 300 سے اوپر چلی گئی ہے ۔ بی ایس آئی کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل سی مرلیدھرن نے دی ہندو کو بتایا کہ زمینی تودوں کا کھسکنا کسی ڈیم کے پھٹنے جیسا تھا ان کے مشاہدہ میں پہلی بار اس قدر خطرناک انداز میں زمین کھسک گئی کہ اس کی وجہ سے وادی میں 6 سے 7 کیلومیٹر دور تک ملبہ پھیل گیا ۔ عام طورپر ملبہ ایک سے دیڑھ کیلومیٹر کے دائرہ میں پھیلتا ہے ۔
وائناڈ واقعہ میں مٹی پانی سے تر تھی اور بھاری بارش کے بعد ڈیم پھٹنے کی طاقت سے پھٹتی چلیار ندی میں مل گئی اور گاؤں کو وادی میں بہاکر لے گئی ۔ گاڈگل پیانل نے چرلملا کو سیاحت کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہم خطہ کے زمرہ میں شامل کیا تھا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ یہاں پر کافی زیادہ بارش ہوتی ہے جو آبی تبدیلیوں کے چلتے اور زیادہ ہوگئی اور دوسرا سیاحت اور ہائی وے روڈ کے فروغ کے نام پر بے لگام ترقیاتی پراجکٹس یا ترقیاتی کام چل رہے ہیں ۔
الجزیرہ میں ٹی اے امیرالدین نے اپنی رپورٹ میں ’’وجوبی ‘‘ کا ایک بیان شائع کیا ۔ انھوں نے Flood and Fury نامی ایک کتاب لکھی ہے ۔ وجوبی کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت وائناڈ کی ماحولیاتی چیلنجس کے تئیں پابند عہد نہیں ہے ، سنجیدہ نہیں ہے جس مقام پر زمینی تودے کھسکنے کے واقعات پیش آئے ہیں اس کے پاس سے گذرنے والے 2000 کروڑ روپئے لاگتی ایک میگا Tunnel پراجکٹ کو ریاستی حکومت نے منظوری دی ہے ۔ ریاستی حکومت نے وہاں Tunnel Project کو منظوری کیوں دی ؟ جب سب کو پتہ ہے کہ مغربی گھاٹ کمزور علاقہ ہے ۔ یہاں لینڈ سلائیڈ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ کئی طرح کی میڈیا رپورٹس کو پڑھتے ہوئے آپ کو الگ الگ وجوہات کا پتہ چلتا ہے ۔ نیوزمنٹ کی صحافی ماریہ ٹریسا نے نیشنل سنٹر فار ارتھ سائنس اسٹیڈیز کے جیالوجسٹ ڈاکٹر کے سمن سے بات چیت کی ۔ انھوں نے کہا ہے کہ انگریزوں نے وائناڈ میں چائے کے باغات بناتے وقت یہاں بسنے والے چھوٹے چھوٹے نالوں کو بھردیا ۔ ان نالوں سے پانی کو نکاسی کا راستہ مل جایا کرتا تھا ، ساتھ ہی انھوں نے ندی کے کنارے مزدوروں کی رہائش شروع کردی جہاں بعد میں چھوٹے شہر بن گئے اس طرح تباہی کی راہ ہموار ہوئی ۔