ڈاکٹر نارائنا کی قیادت میں بازآبادکاری کے کام، اناج اور ضروری اشیاء کی تقسیم
حیدرآباد ۔ 12 اگست (سیاست نیوز) کیرالا کے وائناڈ میں آفات سماوی کے نتیجہ میں بھاری نقصانات سے متاثرہ افراد میں امداد اور بازآبادکاری کے کام جاری ہیں۔ سی پی آئی کے قومی سکریٹری ڈاکٹر کے نارائنا کی قیادت میں راحت اور بازآبادکاری ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں مسلسل قیام کرتے ہوئے اناج اور دیگر ضروری اشیاء تقسیم کررہی ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو ریلیف کیمپس میں منتقل کیا گیا اور سرکاری عملہ کے ساتھ مل کر کمیونسٹ کارکن ملبے کی صفائی میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر کے نارائنا کے ہمراہ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایم سائی کمار، آندھرا پردیش سی پی آئی کونسل کے قائدین محمد صادق، پی کے مورتی، اے آئی ٹی یو سی کے قائد ای جے بابو اور دیگر قائدین امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر نارائنا نے وائناڈ کی تباہی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے کئی علاقوں میں بچاؤ اور امدادی کام تیزی سے جاری ہیں اس کے علاوہ بائیں بازو جماعتوں کے کارکن بھی بچاؤ کاموں میں مصروف ہیں۔ سی پی آئی کے 47 قائدین اور کارکنوں کی ٹیم متاثرہ علاقوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے متاثرین کے لئے فراخدلانہ امداد کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مرکز کو وائناڈ کی تباہی کو قومی آفات سماوی کے طور پر اعلان کرتے ہوئے کیرالا حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وائناڈ ایک تاریخی مقام ہے اور سیاحتی اعتبار سے کیرالا میں شہرت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاحال 416 افراد کی ہلاکت کی توثیق ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں خاندان تباہی سے متاثر ہوئے ہیں اور بے گھر افراد کی مدد کے لئے سی پی آئی سرگرم ہے۔ ڈاکٹر نارائنا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کا خیرمقدم کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ مرکز کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراخدلانہ مدد کی جانی چاہئے۔ سی پی آئی نے متاثرہ علاقوں میں 13 بازآبادکاری کیمپس قائم کئے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو اناج کے علاوہ پکوان سے متعلق ضروری اشیاء سربراہ کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 500 مکانات کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ سی پی آئی کی امدادی ٹیم کی جانب سے چاول، کپڑے، بلینکٹس، ساڑیاں، لنگی، دال، برتن اور دیگر اشیاء سربراہ کی گئیں۔ سی پی آئی کارکنوں نے تقریباً 500 خاندانوں کی بازآبادکاری کرتے ہوئے ان کے تباہ شدہ مکانات کی مرمت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ نارائنا کے مطابق ابھی بھی بعض علاقے امدادی ٹیموں کی رسائی سے باہر ہیں۔ 1