وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل ایران پر حملہ ٹرمپ کے زیر غور

,

   

واشنگٹن: ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ابھی تک اپنے سامنے متعدد فیصلے اور اقدامات کو رکھا ہوا ہے جن پر بیس جنوری کو وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل عمل کر سکتے ہیں۔موجودہ اور سابق امریکی ذمہ داران نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ نے جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس میں ایک خفیہ اجلاس کے دوران سینئر مشیروں سے یہ استفسار کیا تھا کہ آیا ان کے پاس اس بات کے متبادل موجود ہیں کہ وہ آئندہ ہفتوں کے دوران ایران کی مرکزی نیوکلیئر تنصیب کے خلاف قدم اٹھا سکیں۔ تاہم ٹرمپ کے متعدد سینئر مشیروں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی صدر عسکری ضرب لگانے کے حوالے سے اپنے موقف پر قائم رہیں۔ ان مشیروں میں نائب صدر مائیک پینس، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قائم مقام وزیر دفاع کرسٹوفر سی ملیر شامل ہیں۔امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ماریک اے میلی نے خبردار کیا کہ ایرانی تنصیبات کے خلاف عسکری کارروائی ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتوں میں بڑھ کر بآسانی ایک تنازع کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے چہارشنبہ کے روز اعلان کیا تھا کہ ایران کے پاس یورینیم کا ذخیرہ اب اْس مقدار سے 12 گنا زیادہ ہو چکا ہے جس کی اجازت نیوکلیئر معاہدے کی رْو سے تہران کو دی گئی تھی۔ ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران نے اسے ایک اور مشکوک ٹھکانے تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جہاں سابقہ طور پر نیوکلیئر سرگرمی کے ثبوت موجود ہیں۔امریکی ذمے داران کے مطابق ٹرمپ نے قومی سلامتی کے حوالے سے اپنے سینئر معاونین سے موجودہ آپشنز اور جوابی کارروائی کی نوعیت کے بارے میں سوال کیا۔ اس موقع پر پومپیو اور جنرل میلی نے عسکری جارحیت کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ذمہ داران اجلاس سے باہر نکل گئے جن کے خیال میں ایران کو میزائل حملوں کا نشانہ بنانے کا متبادل اب میز پر باقی نہیں رہا۔