یکساں سیول کوڈ … شریعت پر حملہ
وقف بل منظوری کیلئے تیار…مسلمان کب جاگیں گے
رشیدالدین
مسلمان کہاں ہیں اور ان کی حمیت کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ سوال ہر با ضمیر کو جھنجوڑنے کیلئے کافی ہے۔ فسادات میں مسلمانوں کے جانی و مالی نقصان سے دل نہیں بھرا تو ماب لنچنگ کے ذریعہ ٹرینوں ، کھیتوں اور کھلے بازاروں میں مسلمانوں کے خون سے زمین کو سیراب کیا گیا۔ یہ حملے اور خون کی ہولی محض اس لئے ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمانوں نے فسادات کو برداشت کیا۔ حملوں اور ماب لنچنگ کو اس امید کے ساتھ سہہ لیا کہ وقت بدلے گا اور حالات بدلیں گے ۔ وقت اور حالات تو بدلے لیکن مسلمانوں کے حق میں اور بھی ابتر ہوگئے۔ حملوں پر خاموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت اور عبادتگاہوں پر پہرے بٹھائے گئے ۔ مندر کی دعویداری کے ذریعہ مساجد اور درگاہوں پر بابری مسجد کے تجربہ کو دہرانے کی تیاریاں ہیں۔ عبادت گاہوں پر حملوں کے باوجود مسلمان خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے جس کے نتیجہ میں مخالف اسلام اور مخالف مسلم طاقتوں کے حوصلے بلند ہوتے رہے۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت پر حملہ کیا گیا لیکن مسلمان صرف زبانی احتجاج تک محدود رہے۔ بے حسی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا رہا، جس نے آخرکار یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کردی۔ ایک طرف یکساں سیول کوڈ کے ذریعہ شریعت کو نشانہ بنایا گیا تو دوسری طرف وقف ترمیمی بل کو قانونی شکل دے کر مسلمانوں کو اوقافی جائیدادوں سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن امت مسلمہ وہی رفتار بے ڈھنگی کی طرح احساس زیاں سے محرومی کا شکار ہے۔ کسی بھی قوم کی تباہی اور زوال کیلئے دولت اور اقتدار سے محرومی سے زیادہ احساس کا ختم ہوجانا اہم وجہ ثابت ہوا ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات پر اسپین کی تاریخ آنکھوں میں گھومنے لگتی ہے جہاں 800 سال حکمرانی کے باوجود مذہب بیزاری کی سزا صرف اقتدار سے محرومی کی شکل میں نہیں ملی بلکہ نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات اسپین کی تاریخ کو دہرانے کے قریب ہیں؟ مبصرین اور تاریخ کے ماہرین کے مطابق اگر اسلام اور شریعت پر حملہ کے باوجود مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت بے حسی کا شکار رہے تو اسپین کی تاریخ کو دہرائے جانے میں دیر نہیں ہوگی۔ مرکز میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے 10 برسوں میں مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہونے لگے۔ ایک علاقہ کے مسلمانوں پر مصیبت آئی تو دوسروں نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کرلی کہ ہم تو محفوظ ہیں لیکن نفرت اور تعصب کی آگ نے آہستہ آہستہ محفوظ تصور کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صورتحال اب یہ ہے کہ ظلم کو ظلم کہنے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ خوف و ہراسانی کا ایک ایسا ماحول تیار کیا گیا جس میں حوصلوں کو پست کردیا گیا اور مسلمان ہر ظلم کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی آبادی پر ناز تھا اور ہونا بھی چاہئے ۔ وہ اس لئے کہ مسلمان ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں لیکن اپنے دین اور شریعت کے تحفظ کا حوصلہ دیگر اقلیتوں کے مقابلہ میں کمزور ہے۔ ہم سے اچھے تو وہ مٹھی بھر قبائل ہیں جن سے حکومت خوفزدہ ہے اور یکساں سیول کوڈ کے قوانین سے انہیں مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ قبائل نے کہیں کوئی مظاہرہ اور دھر نا نہیں کیا اور نہ ہی یہ مطالبہ کیا کہ یکساں سیول کوڈ ان پر لاگو نہ کیا جائے۔ کسی احتجاج اور مطالبہ کے بغیر ہی قبائل کو محض اس لئے یکساں سیول کوڈ سے استثنیٰ دیا گیا کیونکہ حکومت ان کی طاقت سے واقف ہے۔ بھلے ہی وہ تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن اقتدار وقت کے گریبانوں سے کھیلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ منی پور کے حالات قبائل کی طاقت کی تازہ مثال ہے جہاں کئی ماہ گزرنے کے باوجود حکومت تشدد پر قابو نہیں پاسکی۔ دین اور شریعت پر عمل آوری مسلمانوں کا دستوری حق ہے اور کوئی بھی حکومت شرعی قوانین پر عمل آوری سے روک نہیں سکتی۔ دستوری حقوق میں تعلیمی اور مذہبی حقوق سے محرومی کی صورت میں جمہوری انداز میں احتجاج کی گنجائش ہے۔ مسلمانوں کو جمہوری انداز میں احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور عدلیہ سے رجوع ہوکر شرعی قوانین پر عمل آوری کے حق کو بحال کریں۔ ناانصافیوں کے خلاف عدلیہ سے رجوع ہونے میں تاخیر کی جاتی ہے جو عدالتوں میں سنوائی میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔ اتراکھنڈ میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ اور وقف ترمیمی بل 2024 امت مسلمہ کی غیرت اسلامی اور حمیت دینی کا امتحان ہے۔ اگر اس امتحان میں ناکام ہوگئے تو ملک بھر میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ اور وقف ترمیمی بل کے ذریعہ مساجد کو نشانہ بنانے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ اس سلسلہ کی آخری کڑی ہندو راشٹر کا قیام ہے جو بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا آخری قدم ہوگا۔
اتراکھنڈ ملک میں ہندوتوا کی پہلی تجربہ گاہ بن چکی ہے ۔ بی جے پی کی پشکر دھامی زیر قیادت حکومت نے یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرتے ہوئے ملک بھر میں نفاذ کی راہ ہموار کی ہے ۔ آزادی کے بعد سے گوا میں یکساں سیول کوڈ نافذ ہے لیکن ریاست کے طور پر اترا کھنڈ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں ملک کی پہلی ریاست بن چکی ہے ۔ 2022 اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا جس کی تکمیل کردی گئی۔ چیف منسٹر پشکر دھامی نے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا فخریہ طور پر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ریاست میں تین طلاق اور چار شادیوں کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ شادی بیاہ ، طلاق ، وراثت اور دیگر امور میں شرعی قوانین کے بجائے ملک کے قوانین پر عمل آوری ہوگی۔ یوں تو بی جے پی کی زیر اقتدار کئی بڑی ریاستیں بھی ہیں لیکن ہندو راشٹر کی سمت پیشقدمی کا تجربہ اتراکھنڈ سے کیا گیا ہے۔ بی جے پی اس فیصلہ کے ذریعہ ملک بھر میں مسلمانوں کا ری ایکشن دیکھنا چاہتی ہے ۔ اگر مسلمان یکساں سیول کوڈ کو اتراکھنڈ میں قبول کرلیں گے تو پھر ملک بھر میں نفاذ کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جائے گی۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل دو اہم وعدوں کی تکمیل ہوچکی ہے جن میں رام مندر اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستگی کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور اب یکساں کوڈ کا نفاذ باقی ہے ۔ اتراکھنڈ حکومت کے فیصلہ پر ملک بھر میں مسلم مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی خاموشی معنیٰ خیز ہے ۔ مسلم قیادتوں کی جانب سے جس انداز میں احتجاج کیا جانا ہے، اس کا فقدان دکھائی دے رہا ہے ۔ جن تنظیموں اور اداروں کا ایجنڈہ شریعت کا تحفظ ہے ، وہ بھی شائد پارلیمنٹ میں قانون سازی کا انتظار کر رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو شریعت کے تحفظ کے لئے متحرک ہونا پڑے گا۔ مسلمانوں کو آج مسلم پرسنل لا بورڈ میں مولانا ابوالحسن علی ندوی ، مولانا منت اللہ رحمانی اور مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے، جن کی ایک آواز پر حکومت کے ایوان لرز جاتے تھے۔ ان شخصیتوں کے بقید حیات رہنے تک حکومتوں نے اسلام اور شریعت کے خلاف قانون سازی کی جرات نہیں کی اور شاہ بانو مقدمہ کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دستوری ترمیم کے ذریعہ بے اثر کرنے کے لئے راجیو گاندھی حکومت کو مجبور ہونا پڑا تھا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل 2024 منظوری کے لئے تیار ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے حکومت کی مرضی کے مطابق رپورٹ تیار کرلی اور اپوزیشن ارکان کی ترمیمات کو مسترد کردیا گیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ راہول گاندھی کی زیر قیادت کانگریس پارٹی نے وقف ترمیمی بل کے خلاف پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں آواز بلند کی لیکن انڈیا الائنس کی حلیف جماعتیں بل کو منظوری سے روکنے میں زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وقف ترمیمی قانون کو موجودہ حالت میں منظور ہونے نہیں دیں گے لیکن دونوں بھی سیاسی مجبوری کے تحت خاموش ہوگئے۔ آندھراپردیش اور بہار کو ترقی کیلئے مرکز سے فنڈس کی ضرورت ہے اور سیاسی فائدہ کے آگے وقف ترمیمی بل ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر اپوزیشن کی ترمیمات کو مباحث کے بغیر مسترد کرنا تھا تو پھر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی کیا ضرورت تھی۔ جے پی سی کی تشکیل محض ایک دھوکہ اور ڈرامہ ثابت ہوا ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کی آنکھ میں دھول جھوکنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں جے پی سی کے اجلاس منعقد ہوئے اور کمیٹی سے رجوع ہونے والے 90 فیصد سے زائد افراد اور اداروں نے بل کی مخالفت کی تھی۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو کسی پارٹی یا قائد پر انحصار کئے بغیر اپنی طاقت کے بل پر جمہوری انداز میں میدان میں آنا ہوگا۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے حالات پر بہت پہلے پیش قیاسی کردی تھی ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا