والدین ،اولاد سے جائیداد واپس لینے کے حقدار

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
موجودہ دور میں ساری دنیا میں تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جائیداد کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے دیکھا جاتا ہیکہ صاحب جائیداد ان کے انتقال کے بعد جائیداد پر تنازعہ پیدا ہوتا ہے اور قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے آپس میں دشمنی پیدا ہوتی ہے اور بعدازاں ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے افسوس کی بات یہ ہیکہ اکثر صاحب جائیداد کی جائیداد کے سلسلے میں پیشگی طور پر کوئی بندوبست نہیں کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں قانونی جھگڑے اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اگر صحیح وقت پر کام کیا جائے تو بعدازاں کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہیں ہوسکتا ہے اور آپسی رنجش اور جھگڑوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اگر جائیداد کے سلسلے میں کوئی واضح وصیت نہیں کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں ورثہ کیلئے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہے اور معاملہ عدالت تک پہونچ سکتا ہے جس سے فریقین پر بھاری بوجھ عائد ہوتا ہے اور انہیں کثیر اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں عام طور پر یہ حالات کسی بھی مقام پر دیکھے جاسکتے ہیں اگر بروقت صحیح اقدام کیا جائے اور دوراندیشی سے کام لیا جائے تو کسی بھی قسم کا تنازعہ پیدا نہیں ہوسکتا ہے جائیداد ایک ایسی چیز ہے جو ’’ اگر بناء وصیت ‘‘ کے چھوڑ دی جائے تو ورثہ میں جھگڑے ہوسکتے ہیں اور نوبت نہ صرف مارپیٹ تک آتی ہے بلکہ وکلاء کی خدمات حاصل کرنی پڑ سکتی ہے جس کیلئے انہیں بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہیکہ اگر جائیداد کو یوںہی چھوڑ دیا جائے تو قانونی ورثہ اپنا حق حاصل کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں یہ صورتحال بروقت اقدام نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔عام طور پر جائیدادوں کے معاملے میں جان ہوا جھگڑے ہوتے ہیں اور ایسا فریق جس کا جائیداد میں کوئی حق نہ ہو وہ اپنا حق حاصل کرنے کیلئے ناجائز طریقہ کار استعمال کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ صاحب جائیداد کی جانب سے لاپرواہی یا ذمہ داری کا احساس موجود نہیں ہوتا ہے اور بعدازاں ورثہ کیلئے انتہائی تکلیف دہ حالات پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ ہر طریقہ سے ناجائز حق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات دیکھا گیا ہیکہ رشوت رہتے ہوئے جائیداد کو اپنے نام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کئی خاندانوں کا چین و سکون ختم ہوجاتا ہے دشمنی اور بڑھتی جاتی ہے اور نوبت عدالت تک پہونچ جاتی ہے اور کئی برسوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنا پڑتا ہے ان حالات میں بعض نام نہاد رشتہ دار تماشہ دیکھتے ہیں اور بغیر سوچھے سمجھے جھوٹی گواہی رہتے ہیں جس سے معاملہ اور پیچیدہ ہوجاتا ہے اور دلوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔
حال ہی میں 9 ڈسمبر 2022 کو روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں واضح طور پر احکام جاری کرتے ہوئے ضعیف العمر شہریوں اور والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی محنت کی کمائی سے حاصل کی گئی جائیداد کو بطور تحفہ اپنے بچوں یا کسی رشتہ دار کے حوالے کرتے وقت جو معاہدہ تیار کرتے ہیں اس میں اس بات کی صراحت کرے کہ وہ یہ تحفہ انہیں حوالہ کرنے کے عوض ضعیف العمری ، و پیرانہ سالی کے دوران ان کی نگہداشت ، تیماداری اور پرورش کے حقدار ہیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دیا گیا تحفہ واپس لینے کے مجاز رہیں گے ۔ جسٹس سنجے کے کولی اور جسٹس اے ایس اوکا نے شہریوں کو اس مشورہ پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر دیکھا گیا ہیکہ جائیداد کی حوالگی کیلئے کسی بھی طرح کی کوئی شرط عائد نہیں کی جاتی اور اپنی اولاد کو اس امید کہ ساتھ والدین اپنی زندگی بھر کی کمائی سے حاصل کی گئی جائیداد بطور تحفہ حوالہ کررہے ہیں کہ ان کی اولاد ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی اور ان کی خدمت کرے گی لیکن جائیداد کے حصول کے بعد اکثر نافرمان اولاد اپنے والدین کو نظر انداز کرنے لگتی ہے اسی لئے والدین کو اپنی جائیداد بچوں ( اولاد ) کو حوالہ کرنے سے قبل جو معاہدہ کیا جاتا ہے اس میں تحریری طور پر اُس شرط کو شامل کرنا چاہئے تاکہ اگر بچوں کی جانب سے انہیں نظرانداز کئے جانے کی صورت میں وہ اپنی جائیداد کے تحفہ کو واپس حاصل کرسکیں ۔ سپریم کورٹ نے ایک خاتون کی جانب سے داخل کی گئی درخواست کی سماعت کے دوران یہ مشورہ دیا اور کہا کہ اس طرح کے حالات سے محفوظ رہنے کیلئے والدین کو یہ شرائط درج کرتے ہوئے تحفہ کا معاہدہ کرنا چاہئے گفٹ ڈیڈ میں اس طرح کے شرائط نہ ہونے کی صورت میں اس ڈیڈ کو منسوخ کرنے یا دیا گیا تحفہ واپس لینے کا قانونی حق حاصل نہیں ہوتا ۔ اکثر دیکھا گیا ہیکہ ایک بڑی بے احتیاطی یہ ہورہی ہیکہ مرحوم کی جائز وصیت کی پرواہ نہیں کی جاتی حالانکہ جہاں تک شریعت نے وصیت کا اختیار دیا ہے لیکن مرحوم کے وصیت کرنے کے بعد کسی کو بھی اس میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اگر ایسی مرحوم کی خلاف ورزی کر کے اس کی جائز وصیت پوری نہ کی جائے تو اس کی حق تلفی ہوگی اس لئے بڑے فکر و اہتمام سے مرحوم کی وصیت پوری کرنی چاہئے ۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ بعض لوگ بہنوں کو مرحوم کی وصیت کے مطابق جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ان کی شادی کے موقع پر تحفہ و تحائف دینے سے سمجھتے ہیں کہ ان کا جو حق تھا وہ ادا ہوگیا اس طرح تحفے و تحائف دینے سے ہرگز بہنوں کا جائیداد سے ان کا حق ختم نہیں ہوتا ان کا حصہ پورا پورا ادا کرنا واجب ہے اور ان کو جائیداد سے محروم کرنا حرام اور ظلم ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جس مسلمان کے پاس ایسی کوئی چیز ہے جس کے متعلق اُسے وصیت کرنی ہے اُسے دو راتیں بھی اس حالت میں گذارنے کا حق نہیں کہ وصیت اُس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو صحیح مسلم ‘‘ اس سلسلے میں اگر جائیداد کا تنازعہ ہو یا میاں بیوی میں جھگڑے ہو تو وہ خود آپس میں شریعت کا لحاظ کرتے ہوئے مصالحت کی کوشش کرے اور غیرضروری طور پر طلاق یا خلع کا راستہ اختیار نہ کرے اگر دونوں کے درمیان صلح و صفائی نہ ہونے کی صورت میں خاندان کے بڑے بزرگ لوگوں کی مدد سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے ورنہ سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر پر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے ۔