لندن۔ 6 فروری (سیاست ڈاٹ کام) برطانیہ کے دفتر داخلہ نے 4 فروری کو یہ اعلان کیا تھا کہ معتمد داخلہ ساجد جاوید نے روپوش ہندوستانی تاجر وجئے مالیا کو ہندوستان کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت نے 10 ڈسمبر 2018ء کو حوالگی کے معاملے کو ساجدجاوید سے رجوع کیا تھا جس سے قبل ایک سال تک یہی پس و پیش جاری رہا کہ آیا مالیا کو ہندوستان کے حوالے کیا جائے یا نہیں۔ برطانیہ ہائیکورٹ میں اپنی حوالگی کے معاملے کے خلاف اپیل داخل کرنے کیلئے مالیا کے پاس 14 دن ہیں جہاں وہ اس نکتہ پر بحث کرسکتے ہیں کہ معتمد داخلہ نے ان کی (مالیا) ہندوستان کی حوالگی کے معاملے کو منظور کرنے سے قبل اس سے متعلقہ قانون پر غوروخوض نہیں کیا، البتہ برطانیہ کے حوالگی مجرم ایکٹ 2003ء کے کچھ ایسے نکات ہیں جن کے تحت حوالگی مجرم معاملہ لیت و لعل میں پڑ سکتا ہے۔ سب سے پہلا یہ اندیشہ ہے کہ جس مجرم کو حوالے کیا جارہا ہے، اسے کہیں سزائے موت نہ دی جائے یا پھر اس مجرم پر دیگر الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمہ چلایا جائے۔ اگر ان میں سے کسی بھی نکتہ کا اطلاق مالیا پر ہوتا ہے تو پھر معتمد داخلہ مالیا کو ڈسچاج کرنے کی سفارش کرسکتے ہیں تاہم یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہوگی کہ مالیا ان دو نکات پر کس طرح کامیابی کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مالیا کا حوالگی مجرم معاملہ اختتام پذیر ہوگیا۔ کچھ نکات اس طرح بھی ہیں۔ بادی النظر میں مالیا ان جرائم کے مرتکب نہیں ہیں جیسا کہ سی بی آئی نے ان پر الزام عائد کیا ہے۔ انہیں ہندوستان کے حوالے کرنے سے ان کے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی کہ انہیں شفاف اور منصفانہ مقدمہ کا سامنا کرنے کا موقع دیا جائے کیونکہ سی بی آئی انہیں نامناسب طور پر نشانہ بنارہی ہے۔ ان کو ہندوستان کے حوالے کرنے سے ان کے (مالیا) اس بنیادی حق کی بھی جو ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک اور اذیتیں دیئے جانے کی خلاف ورزی ہوگی۔ لہذا یہ کہنا درست ہوگا کہ ساجد جاوید کی منظوری کوئی پتھر کی لکیر نہیں اور اس کے خلاف مالیا ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ وجئے مالیا کا ابھی ہندوستان واپس آنا مشکل ہے۔