ورلڈ کپ : پاکستان کی شکست

   

انڈیا کی کامیابی میں غیرمتوقع کچھ نہیں

عرفان جابری
انگلینڈ میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں گزشتہ اتوار کو اولڈٹریفورڈ، مانچسٹر میں ہندوستان نے پاکستان کو بُری طرح ہرایا، جس کے ساتھ دونوں ٹیموں کا اس سطح کے باہمی مقابلوں کا ٹریک ریکارڈ7-0 ہوگیا، جس کی شروعات 1992ء میں آسٹریلیا میں منعقدہ 5 ویں ورلڈ کپ سے ہوئی تھی لیکن اسی ٹورنمنٹ میں (موجودہ وزیراعظم پاکستان) عمران خان زیرقیادت ٹیم بالآخر ورلڈ چمپئن بنی تھی جو تاحال پاکستان کی واحد عالمی خطابی فتح ہے۔ میرے خیال میں 16 جون کا میچ پہلا موقع رہا جب ہندوستان معیار اور ردھم کے اعتبار سے پاکستان پر بہت بھاری نظر آیا۔ اس لئے شروع سے ہی ہندوستانی ٹیم کی کامیابی لگ بھگ یقینی تھی۔ چنانچہ سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستان کی شکست فاش پر جس طرح نیوز ٹی وی چیانلوں، سوشل میڈیا اور نوجوان شائقین کرکٹ نے واویلا مچایا، وہ انڈو۔پاک کرکٹ کی تاریخ سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حالیہ عرصے تک پاکستان نے ہندوستان کے خلاف کوئی دیگر آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) ایونٹ میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی تھی، لیکن چمپینس ٹروفی منعقدہ انگلینڈ میں فتح نے یہ سلسلہ آخرکار توڑا۔ اسی طرح مستقبل میں ونڈے کرکٹ ورلڈ کپ میں بھی پاکستان ضرور کامیاب ہوجائے گا، جس کیلئے کم از کم 4 سال مزید انتظار کرنا ہوگا۔ تاہم، جاریہ ورلڈ کپ میں جو گوشے پاکستان کی جیت کے منتظر تھے وہ بس حد درجہ پُرامیدی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔
سرفراز احمد کو ٹاس جیت کر ہندوستان کو پہلے بیٹنگ کیلئے مدعو کرنے پر سب سے زیادہ تنقیدوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ کرکٹ اور بعض دیگر کھیلوں بلکہ زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں ’فکسنگ‘ (عام زبان میں ’دھاندلی‘) کا اندیشہ ہمیشہ لگا رہتا ہے۔ اتوار کے میچ میں سوائے ٹاس کہیں بھی کوئی قابل گرفت مشکوک حرکت نظر نہیں آئی۔ صرف ٹاس جیت کر بیٹنگ کے بجائے بولنگ کے انتخاب سے کوئی ٹیم کا مقابلہ جیتنا یقینی نہیں ہوجاتا۔ جاریہ ورلڈ کپ میں زیادہ تر کپتانوں نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کیا ہے۔ اتفاق سے انڈیا۔ پاکستان میچ کے دوسرے ہی روز بنگلہ دیش نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سرفراز جیسا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز نے 322 کا ٹارگٹ مقرر کیا جسے دو تین بیٹسمنوں کی ذمہ دارانہ کارکردگی نے بہت ہی آسان بنادیا۔ یہ بھی بتادوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے 7 ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان نے صرف 2 مرتبہ ٹاس جیتا۔ یعنی سرفراز سے قبل صرف ایک بار 2003ء میں سنچورین (جنوبی افریقہ) میں وقار یونس نے پاکستان کیلئے ٹاس جیتا تھا۔ انھوں نے پہلے بیٹنگ کا انتخاب کیا اور ٹیم نے معقول اسکور (273/7) کھڑا کیا تھا لیکن اُن دنوں سچن تنڈولکر (مین آف دی میچ) کے علاوہ اور کئی ہندوستانی بیٹسمین زبردست کھیل رہے تھے۔ چنانچہ وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر جیسے کاٹ دار پیس بورلز کے ساتھ عمدہ اسپنرز پر مشتمل طاقتور بولنگ لائن اپ کے باوجود پاکستان کو شکست ہوگئی۔ بقیہ پانچ موقعوں پر ہندوستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا انتخاب کیا جس کی وجہ واضح رہی کہ روایتی طور پر انڈیا بالخصوص پاکستان کے خلاف ٹارگٹ کے تعاقب میں کمزور رہا تھا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دونوں ٹیموں کے درمیان تاحال 132 ونڈے میچز میں انڈیا نے 68 مرتبہ اور پاکستان نے 64 بار ٹاس جیتا۔ تاہم جیت کا فرق دیکھ لیجئے۔ پاکستان ٹاس چار مرتبہ زیادہ ہارنے کے باوجود ہنوز 18 میچز زیادہ جیتا ہوا ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ ہندوستان 68 بار ٹاس جیتنے کے باوجود صرف 27 میچز میں کامیاب ہوا جبکہ پاکستان کو دیگر 38 میں کامیابی ملی۔ انڈیا نے 32 مرتبہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور 16 مرتبہ کامیاب اور مساوی طور پر ناکام رہا۔ پھر 36 مرتبہ ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کرنے پر ہندوستان کو صرف 11 بار کامیابی ملی اور 22 مرتبہ ناکامی۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں ایم ایس دھونی اور موجودہ کپتان ویراٹ کوہلی کی کپتانی میں ہندوستان نے اس رجحان کو پلٹنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس اعتبار سے سرفراز کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ موجودہ طور پر پاکستان ٹارگٹ کے تعاقب میں کمزور ہے۔ چنانچہ مقامی موسم اور بعض دیگر وجوہات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انھیں پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرنا چاہئے تھا جیسا کہ عمران خان نے تاکید بھی کی تھی۔ اس اعتبار سے سرفراز بڑی غلطی کرگئے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کیلئے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 275 تا 300 کا اسکور کھڑا کرنا مشکل تھا اور ایسی صورت میں ویراٹ زیرقیادت ٹیم کو ہی کامیابی ملتی۔ بہ الفاظ دیگر میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ اب تک کے 7 انڈو۔پاک ورلڈ کپ میچوں میں یہی واحد موقع رہا جس میں 95% سے زیادہ امکانات ٹیم انڈیا کی کامیابی کے تھے۔ اس لئے پاکستان کی 89 رنز (ڈکورتھ۔ لوئس میتھڈ) سے شکست فاش پر پاکستان کے تائیدی میڈیا وغیرہ کا واویلا کرنا فضول ہے۔ جب عمران خان، وسیم اکرم، شاہد آفریدی وغیرہ کی کپتانی میں کم از کم انڈیا کی ہم پلہ یا بہتر پاکستانی ٹیموں نے ورلڈ کپ میں ہندوستان کو نہیں ہرایا تو سرفراز کی ٹیم پر عتاب نازل کرنا زیادتی ہے۔ ہاں انفرادی طور پر خود سرفراز کے بشمول بعض کھلاڑیوں کے خلاف اقدامات کئے جانے چاہئیں جو پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلئے ضروری ہے۔ سرفراز کو کپتانی سے فارغ کرنا مناسب کارروائی ہوگی۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ابتداء سے ہاکی اور کرکٹ میں سخت رقابت رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہاکی ماند پڑگئی اور کرکٹ کا غلبہ ہوگیا۔ 1975ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کی شروعات روایتی ٹسٹ میچ (طویل فارمیٹ) کے بجائے محدود اوورز کے میچوں کے ساتھ ہوئی جو ونڈے انٹرنیشنل (ODI) کرکٹ کہلائی۔ اس سے قبل 13 جولائی 1974ء کو ہندوستان نے اپنا پہلا ونڈے انٹرنیشنل میچ لیڈز میں انگلینڈ کے خلاف کھیلا جو میزبانوں نے جیتا تھا۔ پاکستان نے اپنا پہلا او ڈی آئی میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں 11 فبروری 1973ء کو کھیلا جو میزبانوں کا بھی پہلا ونڈے میچ ثابت ہوا جس میں وہ 22 رنز سے کامیاب ہوئے تھے۔ ابتدائی چار ورلڈ کپ ٹورنمنٹس 1975، 1979، 1983 اور 1987ء میں ہند۔پاک مقابلہ نہیں ہوپایا کیونکہ ٹیموں کو دو گروپ میں تقسیم کرنے کے طریقہ کار پر عمل ہوتا رہا اور دونوں ٹیمیں یکساں گروپ میں نہیں آئیں۔ اس دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلا ونڈے میچ کوئٹہ میں یکم اکٹوبر 1978ء کو کھیلا گیا جو مہمان ٹیم نے جیتا، مگر تین میچوں کی وہ سیریز 2-1 سے میزبانوں نے جیتی تھی۔ تب سے حالیہ میچ تک 132 ہند۔پاک مقابلے ہوچکے ہیں جن میں ہندوستان 55، پاکستان 73 مرتبہ کامیاب جبکہ 4 میچز بے نتیجہ رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان 18 کامیابیوں کا فرق تقریباً دو دہے قبل تک زیادہ ہوا کرتا تھا۔ تاہم، 1998ء کے ٹورنمنٹ منعقدہ بنگلہ دیش کے خطابی مقابلے میں محمد اظہر الدین کی زیرقیادت ٹیم انڈیا نے جب پاکستان کو زائد از 300 رنز کا ٹارگٹ عبور کرتے ہوئے سنسنی خیز انداز میں شکست سے دوچار کیا تو لگا کہ پاکستان کے خلاف ٹارگٹ کو عبور کرنے کی کمزوری ماند پڑگئی ۔ اس کے بعد سے ہندوستان نے مختلف کپتانوں جیسے سورو گنگولی، ایم ایس دھونی، ویراٹ کوہلی کی قیادت میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
اس کے برعکس پاکستان میں عمران خان، جاوید میاں داد، وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور، عامر سہیل، محمد یوسف، انضمام الحق، اعجاز احمد، یونس خان، عاقب جاوید، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق، معین احمد، شعیب اختر و دیگر کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ قبل لمیٹیڈ اوورز کرکٹ کے اسٹار آل راؤنڈر شاہد آفریدی کے ریٹائرمنٹ نے پاکستان کو کافی کمزور کردیا ہے۔ ہنوز چند اچھے بیٹسمین اور بولرز ہیں جو ناقص سلیکشن پالیسی کا شکار ہوگئے۔ انضمام الحق بے شک پاکستان کی تاریخ کے چند ماہر بیٹسمنوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن کسی ایک شعبہ کا ماہر دیگر شعبوں میں بھی اسی طرح کامیاب ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس کپل دیو اور سچن تنڈولکر کی مثالیں ہیں۔ اول الذکر کو ٹیم انڈیا کا کوچ بنایا گیا اور آخرالذکر کو کپتان۔ لیکن جس معیار کے وہ کھلاڑی رہے ویسا نتیجہ اُن کے دیگر رول میں حاصل نہیں ہوپایا۔ اس لئے انضمام الحق کو بھی چیئرمین آف سلیکٹرز کی ذمہ داری سے فارغ کردینا اور اس عہدہ کیلئے کسی مناسب شخصیت کو مقرر کرنا پاکستان کرکٹ کیلئے بہتر ہوگا۔
1992ء میں پہلی بار تمام شرکاء (9 ٹیمیں) کی ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کا راؤنڈ روبن لیگ سسٹم اپنایا گیا۔ چنانچہ انڈو۔پاک ورلڈ کپ رقابت کی شروعات ہوئی۔ 1996، 1999، 2003، 2007، 2011 اور 2015ء میں دوبارہ گروپ نہج پر عمل کیا گیا مگر ہندوستان اور پاکستان یکساں گروپ میں رہیں یا نہ رہیں، وقفے وقفے سے کسی نہ کسی مرحلے پر اُن کی مسابقت ہوتی رہی۔ اب 2019ء میں دوبارہ 1992ء کا راؤنڈ روبن لیگ سسٹم (10 شرکاء ٹیمیں) اختیار کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اب کپتانی میں سرفراز احمد نہ عمران خان کے قریب پہنچ سکتے ہیں، اور نہ موجودہ ٹیم میں تب جیسی کوئی غیرمعمولی بات ہے۔ 1992ء میں صرف انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے غیرمعمولی مظاہروں کے سبب چار سیمی فائنل ٹیموں میں دو مقام طے تھے، یعنی بقیہ دو مقامات کیلئے مسابقت چلتی رہی اور پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف ناقص میچ کے باوجود بارش کے سبب ملے ایک پوائنٹ اور راؤنڈ روبن کے آخری لیگ مقابلوں کے بعض سازگار نتائج نے سیمی فائنلز میں پہنچایا۔ اُس مرحلے تک پہنچنے کے بعد لیگ میچز کے مظاہروں سے قطع نظر دو قدم جم کر رکھنے پر ہی خطابی فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ کام انضمام الحق، عمران خان، جاوید میاں داد، وسیم اکرم نے کردکھایا تھا۔ اِس مرتبہ انگلینڈ میں پاکستان کیلئے مشکل یہ ہے کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انڈیا، انگلینڈ پہلے ہی سیمی فائنلز کو لگ بھگ پُر کرچکے ہیں اور ان چار ٹیموں کا دیگر چھ کے مقابل فرق اتنا بڑھ کر ہے کہ کسی پانچویں ٹیم کا ناک آؤٹ مرحلے میں داخلہ ممکن نظر نہیں آتا، ہاں یہی چار ٹیمیں آگے پیچھے ہوسکتی ہیں!
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com