ایم کے وینو
وزیر اعظم نریندر مودی نے منی پور کی تباہی و بربادی پر 80 دنوں تک کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا اور جب تین خواتین کو برہنہ کرکے گشت کروانے اور ان کی اجتماعی عصمت ریزی کا ویڈیو وائرل ہوا تب مودی جی نے زبان کھولی اس سے اندازہ ہوا کہ کچھ رہنما اقتدار کی سیاست کے لوازمات یا ضروریات کے لحاظ سے ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور اس ردعمل کے اظہار میں کتنے سخت ہوتے ہیں اور اس معاملہ میں ایک پٹرن یا نمونہ اور انداز بھی نظر آتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہر سال کسی نہ کسی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی لیڈران اپنے رائے دہندوں سے مسلسل خطاب کرتے رہتے ہیں اور خطاب کرنے کا یہ رجحان سیاست کی ایک مستقل خصوصیت بن گیا ہے لیکن ایک بات ضرور ہیکہ سیاسی تقاریر کا لب و لہجہ الگ ہوتا ہے اور ہمارے معاشرہ میں بعض اپنے واقعات پیش آتے ہیں جس پر بہت احتیاط سے ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر فطرت انسانی کے مطابق ردعمل کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اب حال ہی میں مودی جی نے منی پور واقعات پر اپنی خاموشی ختم کی اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انہوں نے پورے 79 یا 80 دن کے بعد اپنی خاموشی توڑی لیکن انہوں نے جو کچھ کہا اس میں کسی بھی طرح فطرت انسانی کے مطابق ردعمل اور جذبات و احساسات کا فقدان نظر آیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک حساس مسئلہ پر بیان دیتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم خالص انسانی فطرت کے عین مطابق اظہار خیال نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ یہ مسئلہ انسانوں کی زندگیوں خواتین کی حرمت ان کی عصمتوں سے جڑا ہے۔ انہوں نے شائد مجبوراً منی پور واقعہ پر بیان دیا ہے لیکن ایک شاطر سیاستداں کی طرح انہوں نے اس بیان کو بھی سیاسی رنگ میں رنگ دیا اور منی پور کے ساتھ غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ کے بھی حوالہ دیا۔ مودی جی کو چاہئے تھا کہ وہ صرف منی پور پر بیان دیئے کیونکہ انہوں نے جس دن بیان دیا وہ 79 واں ایسا دن تھا جس میں منی پور جل رہا تھا، یعنی انہوں نے پہلے تو منی پور کی تباہی و بربادی خون ریزی اور خواتین کی عصمتیں لوٹے جانے پر ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا اور پورے 79 دن بعد اس پر بیان دیا۔ ممتاز کالم نگار تولین سنگھ کا انگریزی کے موقر اخبار انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ آخر وزیر اعظم نریندر مودی اس طرح کے شرمناک و بدبختانہ واقعات پر بروقت ردعل کے اظہار سے گریز کیوں کرتے ہیں اور وہ کیا چیز ہے جو انہیں (وزیر اعظم) کو منفی اور ناسازگار حالات میں ایک طویل عرصہ تک اپنا منہ بند رکھنے کے لئے مجبور کرتی ہے۔
تولین سنگھ اپنے کالم میں یاددلاتے ہیں کہ 2015 میں دادری اترپردیش میں گائے کا گوشت رکھنے کے شبہ میں محمد اخلاق کو شرپسندوں کی جانب سے پیٹ پیٹ کر قتل کئے جانے پر بھی مودی جی نے ایک لفظ ادا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے بالکل خاموشی اختیار کی تھی اور شاید وہ ہجومی تشدد میں کسی بے قصور انسان کی ہلاکت کا پہلا واقعہ تھا جس کے بعد سارے شمالی ہند میں ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کا نہ رکھنے والا سلسلہ چل پڑا ہے اور اس وقت سے مودی نے اس قسم کے واقعات پر اپنا منہ بند رکھنے کی فطرت کو ظاہر کیا ہے اور عین ممکن ہیکہ آنے والے دنوں میں ان کے امیج اور ان کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ حال ہی میں چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا شرماتے یہ بیان دیا ہیکہ سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے میاں جی سبزی فروش ذمہ دار ہیں یقین ہیکہ مودی جی اس قسم کے شرپسندانہ بیان پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کریں گے اور یہ ایک حقیقت ہیکہ ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے ایسے واقعات پر مودی جی کی خاموشی ان کی اپنی پارٹی بی جے پی کی جانب سے بار بار دہراتے جانے والے نعرہ ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے بالکل متضاد ہے۔ مودی جی کا ہر سنگین مسئلہ پر خاموش رہنا ہوسکتا ہے کہ انہیں سیاسی طور پر فائدہ پہنچائے لیکن ان خاموشی سے متعلق عمل سے انسانیت اور اس سے جڑے انسانی جذبات واحساسات کا نقصان ہے جبکہ سیاسی رہنماؤں میں انسانیت کا جذبہ و احساس فطری طور پر ضرور ہونا چاہئے۔ سیاسی لیڈروں کی انسانیت کی بہترین مثال 20212 کے دہلی نربھیا عصمت ریزی کیس میں اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور صدر یو پی اے سونیا گاندھی ہیں جنہوں نے نربھیا کے ماں باپ سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں نہ صرف دلاسہ دیا۔ ان کی دل جوئی کی بلکہ خاطیوں کو سخت سے سخت سزائیں دلانے کا وعدہ کیا۔ یہی نہیں اس کے بعد راہول گاندھی نربھیا کے خاندان سے مسلسل رابطہ میں رہے جس کا ثبوت یہ ہیکہ نربھیا کے والد بدری ناتھ سنگھ نے راہول گاندھی کی ستائش کرتے ہوئے کہا تھا ’’سیاست کچھ بھی ہو راہول گاندھی ہمارے لئے فرشتہ ہیں‘‘ ان کا کہنا تھا کہ راہول نے ان کے بیٹے کو نہ صرف گریجویشن کرانے بلکہ پائلٹ بننے میں پوری پوری مدد کی تھی۔ ایسے میں راہول گاندھی کے اس عمل کو سیاسی ردعمل کی بجائے خالصتاً شخص انسانی ردعمل قرار دے سکتے ہیں۔ مودی جی اکثریتی ہجوم کے تشدد میں بے قصور مسلمانوں اور دلتوں کے قتل، اقلیتوں کے خلاف بی جے پی قائدین اور مرکزی وزرا کی زہر افشانی، ہندوستانی سرحدوں میں چین کی دراندازی، جنسی زیادتی کے خلاف بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے حلاف خاتون پہلوانوں کے احتجاج اور منی پور کے تشدد پر خاموشی اختیار کی۔ سوال یہ ہیکہ کیا ان کا طرز عمل ایسے ناقابل قبول واقعات پر ان کی سوچی سمجھی خاموشی کی وضاحت کرتا ہے؟ وزیر اعظم کے بارے میں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ان کے پاس ملک و عوام کے سلگتے مسائل پر کچھ کہنے کا وقت نہیںہے لیکن اپنی شبیہہ بنانے والے پروگرامس پر بالکل سمجھوتہ نہیں کرتے۔