وزیر فینانس کے جھوٹے دعوے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

عزت مآب وزیر فینانس محترمہ نرملا سیتارامن نے 24 جولائی 2024 ء کو بجٹ برائے سال 2024-25 پیش کیا اور اس کے دوسرے دن سے بجٹ پر بحث کا آغاز ہوا ۔ وزیر فینانس نے 30 جولائی کو لوک سبھا میں اور 31 جولائی کو راجیہ سبھا میں بجٹ مباحث کا جواب دیا ۔ وزیر فینانس نے جو جواب دیئے ان میں تین باتوں پر بہت زور دیا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ تین باتیں ہی ، بجٹ کا نچوڑ ہیں ۔
.1 حکومت ہر شعبہ میں زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کررہی ہے : مصارف ، ہماری وزیر فینانس کے مطابق ایک بہتر حکمرانی کے اقدامات ہیں جس کے نتیجہ میں عوام کے تمام طبقات کو ترقی و بہبود سے فائدہ ہوا ہے ۔ وزیر فینانس نے اپنے جواب اور خطاب میں اعداد و شمار کا سہارا لیا ۔ انھوں نے اصل مقصد کی جانب آنے کی بجائے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بتایا کہ سال 2012-14 ء میں کل مصارف کیا تھے حکومت نے کن شعبوں پر کتنا خرچ کیا ۔ یو پی اے حکومت کے آخری سال میں کتنی رقم مختلف شعبوں اور پراجکٹس کے لئے مختص کی گئی ۔ اسی طرح انھوں نے ایوان کو یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ حکومت نے 2019 اور 2023-24 یعنی این ڈی اے II کی پہلے اور آخری سال میں کتنے مصارف کئے اور 2024-25 میں حکومت کتنی رقم خرچ کرے گی ۔ جہاں تک نمبرون یا اعداد و شمار کا سوال ہے ۔ ان اعداد و شمار نے سال بہ سال مصارف میں اضافہ دکھایا ہے جو فطری بات ہے ۔
مثال کے طورپر وزیر فینانس نے کہا 2013-14 میں زرعی شعبہ اور اس سے جڑے شعبوں سے صرف 0.30 لاکھ کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے جبکہ اب زرعی شعبہ کیلئے 1.52 لاکھ کروڑ روپئے مختص کئے گئے اور یہاں تک کہ یہ 2023-24 ء کے آخری سال سے 8000 کروڑ روپئے زیادہ ہے ۔ چنانچہ گزشتہ برسوں سے ہم نے بجٹ میں اضافہ ہی کیا ہے کمی نہیں کی ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ وزیر فینانس نے جو اعداد و شمار ( نمبر ) پیش کئے ہیں وہ موجودہ قیمتوں میں ہیں Constant Prices میں نہیں اس کے علاوہ مصارف بڑھانے کے دعوے صرف اسی وقت درست ہوں گے اور دعوؤں کے تناظر میں صحیح ہوں گے جب اُن کا جملہ مصارف کے تناسب یا قومی مجموعی پیداوار کے تناسب کے طورپر اظہار کیا جائے۔ مزید براں یہ کہ کئی ایسے شعبہ ہیں جن کے تحت سال 2023-24 ء میں مختص کردہ فنڈز خرچ نہیں کئے گئے ۔ اس بارے میں وزیر فینانس نے کوئی بات نہیں کی ۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر مختص بجٹ خرچ کیوں نہیں کیا گیا ۔
مثال کے طورپر زرعی شعبہ اور اس سے جڑے میدانوں کیلئے 1,44,214 کروڑ روپئے مختص کئے گئے اور اس میں سے 1,40,533 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ۔ تعلیمی شعبہ کیلئے 1,16,417 کروڑ روپئے مختص کئے گئے اور مصارف 1,08,878 کروڑ روپئے رہے ۔ صحت کے شعبہ کیلئے 88,956 کروڑ روپئے مختص کئے گئے اس میں سے 79,221 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ۔ حکومت نے سماجی بہبود کیلئے 55,080 کروڑ روپئے مختص کئے لیکن 46,741 کروڑ روپئے خرچ کئے ۔ سائنٹفک ڈپارٹمنٹس کیلئے 32,225 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ان میں سے 26651 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ۔
.2 بیروزگاری کا مسئلہ موجود نہیں ہے : وزیر فینانس نے کہاکہ حکومت کی پالیسی ساکشم ، سواتنتر اور سمرتھ (بامعنی ، قابل ، آزادانہ ) ہے ۔ محترمہ سیتارامن یہاں بھی اُسی طرح کے اعداد و شمار پیش کئے جس طرح مختلف شعبوں کیلئے مختص بجٹ کے بارے میں پیش کئے تھے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ پیرئڈک لیبر فورسس سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں 3.2 فیصد کمی آئی ہے اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی تحقیقی رپورٹ میں پایا گیا کہ 125 ملین روزگار کے مواقع یا ملازمتیں 2014 اور 2023 ء کے درمیان پیدا کئے گئے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں سرکاری رپورٹس ہیں یعنی حکومت کی ایماء پر تیار کردہ رپورٹس ہیں ILO ( انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ) کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہندوستان میں جو لوگ بیروزگار ہیں اُن میں 83 فیصد نوجوان ہیں لیکن وزیر فینانس نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ آخر ہزاروں لاکھوں امیدواروں کیلئے چند سو ، چند ہزار ملازمتیں کیوں ؟ مثال کے طورپر اُترپردیش پولیس کانسٹیبل رکروٹمنٹ امتحانات کو لیجئے 60,244 کانسٹیبلس کی مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی کیلئے ہوئے ان امتحانات میں 48 لاکھ سے زائد امیدواروں نے شرکت کی اور امتحان لکھا جن میں تقریباً 16 لاکھ خواتین بھی شامل تھیں دوسری طرف اسٹاف ، سلیکشن کمیشن یوپی کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں اُس کے تحت 75000 عہدوں پر بھرتیوں کا اعلان کیا گیا جس کیلئے 24,74,030 درخواستیں موصول ہوئیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بیروزگاری کی شرح میں کمی آرہی ہے تو پھر مخلوعہ جائیدادوں کیلئے درخواستیوں ؍ اُمیدواروں کا تناسب اس قدر زیادہ کیوں دیکھا گیا ؟ جائیدادیں کم اور امیدواروں کی درخواستوں کی بے تحاشہ تعداد جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں کمی نہیں ہوئی جیسا کہ وزیر فینانس نے دعویٰ کیا ۔
میں نے آپ کو مذکورہ سطور میں جو دو مثالیں پیش کی ہیں اس کا تناسب بالترتیب 1:80اور 1:329 ہے ۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پولیس کانسٹیبل یا کلرک کی جائیداد کیلئے انجینئرس، مینجمنٹ گریجویٹس ، وکلاء اور پوسٹ گریجویٹس کیوں درخواستیں دے رہے ہیں ۔ بیروزگاری کے بارے میں حقیقت جاننے کیلئے میرا تو مشورہ ہے کہ وزیراعظم اور دیگر وزراء ملک بھر کے ٹاؤنس اور شہروں کی سڑکوں پر پیدل چلیںاور ہماری وزیر فینانس مدورائی سے پیدل چل سکتی ہیں ۔ واضح رہے کہ نرملا سیتارامن مدورائی میں پیدا ہوئیں ، وہ مدورائی سے پیدل چلکر ولاپورم جائیں ( جہاں وہ اسکول گئی تھیں) اور تیروچیراپلی پر اپنی پیدل یاترا کا اختتام عمل میں لائے (جہاں وہ کالج گئیں تھیں )
.3 ہمارے افراط زر کی شرح آپ سے بہتر ہیں : وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے کہاکہ یو پی اے حکومت ہارورڈ اور آـکسفورڈ کے تعلیمیافتہ لوگوں نے چلائی لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان لیڈروں کو معیشت کے اسرار و رموز سے کماحقہ واقفیت نہیںتھی ، وہ نہیں جانتے کہ افراط زر کو کیسے قابو میں لایا جاسکتا ہے ۔ اس ضمن میں انھوں نے 2009 ء اور 2013 ء کے درمیان کے عرصہ کی مثال پیش کی ۔ (انھوں نے بڑی ہشیاری سے کسی کا نام نہیں لیا کیونکہ اس سے اُن کی حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا ) ۔ وزیر فینانس کو چاہئے کہ وہ یہ سمجھ لیں کے لوگ یو پی اے حکومت میں نہیں بلکہ این ڈی اے حکومت میں جی رہے ہیں ۔ مودی 2.1 میں بھی عوام کا برا حال تھا ۔ مودی حکومت میں ٹماٹر ، پیاز اور آلو کی قیمتوں میں سال بہ سال بالترتیب 30 ، 46 اور 59 فیصد اضافہ ہوا جبکہ غذائی افراط زر 9.4 فیصد ہے ۔ عوام ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں تمام زمروں سے تعلق رکھنے والوں کی تنخواہیں 6 برسوں کے دوران انجماد کا شکار ہیں ۔ جب لوگوں نے اپریل ۔ مئی 2024 ء میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تب انھوں نے یو پی اے کے دورِ حکومت کے افراط زر کے خلاف ووٹ نہیں دیا بلکہ مودی حکومت میں پیداشدہ افراط زر کے خلاف ووٹ دیا۔