وصیت : سرسری تعارف

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
’’وصیت‘‘ جائیداد کے تعلق سے وصی کے ارادے کا قانونی اعلان ہے جبکہ اس کی خواہش کے مطابق اس کی موت کے بعد عمل ہوتا ہے، اس میںوصیت نامہ
(Codicil)
اور ہر وہ تحریر شامل ہوتی ہے جس کے ذریعہ جائیداد وصی کی موت کے بعد رضا کارانہ فروخت عمل میں آتی ہے۔ یہ ایک حلفیہ بیان پر مبنی دستاویز ہے جس کے ذریعہ کوئی بھی شخص وصی کی موت کے بعد اسے فروخت کرسکتا ہے اور وصیت وصی کی زندگی کے دوران قابل تنسیخ ہوتی ہے، اس طرح سے وصی اپنی وصیت کو جب جیسا چاہے تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ دستاویز پوشیدہ اور رازداری پر مبنی ہوتی ہے۔ وصیت کے دو لازمی خصوصیات ہوتی ہیں۔
(1) ضروری ہے کہ وصی کی موت کے بعد وصیت عمل میں آئے اور (Testator) کی جانب سے اسے کسی بھی وقت منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص مرنا نہیں چاہتا حالانکہ وہ لوگ بھی مرنا نہیں چاہتے ہیں جو جنت میں جانے کے خواہاں ہوں تاہم موت ہم سب کی منزل ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا ہے اور موت ہی زندگی کا واحد اختتام ہوتی ہے۔ دراصل یہ زندگی کی تبدیلی کا عنصر ہوتی ہے۔ موت سے پرانے لوگوں کا خاتمہ ہوتا ہے اور نئے لوگوں کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایک نوجوان آخری وقت اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ میرے لئے دنیا سے جانے کا وقت نہیں قدرت کا یہ قانون ہے کہ جو بھی پیدا ہوتا ہے، اسے مرنا ہوتا ہے لہٰذا موت کا یقین ہونا بھی مشتبہ نہیں رہا ہے۔ واحد غیریقینی بات یہ ہے کہ موت کب اور کہاں اور کس طرح آتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس مسلمان کے پاس ایسی کوئی چیز ہے جس کے متعلق اسے وصیت کرنی ہے، اسے دو راتیں بھی اس حالت میں گزارنے کا حق نہیں کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو‘‘۔ (صحیح مسلم ؒ)
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہر شخص کو سمجھنا چاہئے کہ موت کو ٹالا نہیں جاسکتا ہے اور زندگی کا ایک ایک منٹ کار خیر میں صرف کرنا چاہئے اور مذکورہ بالا نوعیت سے کام دوران زندگی اپنے وقت پر کرنا چاہئے۔ وصیت ایک سمجھ داری کی بات ہوتی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں آپ اپنی دولت کے استعمال کی نوعیت کا یقین کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دولت یا پیسہ ہی اکثر موقعوں پر فساد کی جڑ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بیشتر تنازعات پیدا ہوجاتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ وصیت کو نظرانداز اور فراموش کردیتے ہیں، اس سے بعدازاں جھگڑے فساد اور غیرضروری مسائل پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کیا جانا چاہئے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ معاملات میں قانونی اور خاندانی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض وقت وصیت کے برعکس بعض بھائی بہنوں میں اپنے حصہ کے متعلق لڑائی جھگڑے تنازعات پیدا ہوتے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض قریبی رشتہ دار یہ تماشہ دیکھتے ہیں او ر طاقتور فریق کی تائید لیتے ہیں حالانکہ شریعت کی روسے وصیت پر عمل ضروری ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بعض صاحبِ جائیداد حالت صحت میں وصیت نہیں کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی مزید باقی ہے لیکن موت اور حیات پر کس کا بس نہیں، لہذا دوراندیشی کا تقاضہ ہے کہ وصیت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ حالت تندرستی اور ہوش حواس کے ساتھ وصیت کرے اور اس موقع پر گواہ کو بھی وصیت نامہ پر دستخط کرنا چاہئے تاکہ بعدازاں کسی قسم کی قانونی پیچیدگی پیدا نہ ہو اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے۔ اس سلسلے میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو خاندان کے بڑے بزرگ تنازعہ کی یکسوئی میں اہم رول ادا کریں اور حقدار کو اس کا حق دلائیں، ان حالات میں دنیا اور آخرت دونوں کیلئے بہتر ہے کہ جائیداد کی تقسیم شریعت کے قانون کے مطابق اپنی زندگی میں عمل میں لائی جائیں تاکہ فتنہ فساد نہ ہو اور خاندان میں کسی قسم کی شخصی عداوت پیدا نہ ہو کیونکہ ایک مسلمان کی زندگی میں شریعت کے فیصلے ہی سب سے بہترین اور موزوں ترین ہوتے ہیں جبکہ اسلام ، عدل اور انصاف کی ہدایت کرتا ہے۔ مزید تفصیلات کیلئے فون 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔