وفاقیت پر حکومت کا پارلیمانی وار

   

پی چدمبرم

میں نے 28 فبروری 1997ء کو میری بجٹ تقریر میں ’امدادباہمی پر مبنی وفاقی نظام حکومت‘ کا فقرہ استعمال کیا تھا۔ میرا دعویٰ نہیں ہے کہ میں نے اس فقرے کو پہلی مرتبہ استعمال کیا، بلکہ مجھے خوشی ہے کہ ’امداد باہمی پر مبنی وفاقیت‘ کو دیگر موقعوں پر بھی بجٹ تقاریر میں بار بار استعمال کیا گیا ہے۔
ریاستیں مقتدر اعلیٰ ہیں
’امداد باہمی پر مبنی وفاقیت‘ کا کیا مطلب ہے؟ یہ فقرہ اس بات کو تسلیم کرتا اور توثیق کرتا ہے کہ انڈیا وفاقی مملکت (فیڈرل اسٹیٹ) ہے۔ مرکزی حکومت ہے اور ریاستی حکومتیں بھی ہیں۔ ہر حکومت کیلئے محفوظ شعبہ جات قانون سازی ہیں۔ مرکزی حکومت (پارلیمنٹ کے ذریعے) اس دائرۂ عمل میں نہیں گھس سکتی جو ریاستی حکومت کیلئے مختص ہے، اسی طرح ریاستی حکومت (مقننہ کے ذریعے) مرکزی حکومت کیلئے محفوظ دائرۂ کار میں دخل اندازی نہیں کرسکتی ہے۔ بعض ایسے شعبے بھی ہیں جہاں دونوں حکومتیں قانون بناسکتی ہیں۔ قانون سازی کے شعبوں کی تقسیم ہی وفاقیت کا اصل ہے۔ دستوری ترکیب کا احترام کرنا امداد باہمی پر مبنی وفاقیت ہے۔
اس کے باوجود دستورِ ہند میں استثنائی گنجائشیں شامل ہیں جو پارلیمنٹ کو مجاز گردانتا ہے کہ کسی غیرمتعین کردہ معاملے پر قانون بنائے (آرٹیکل 248)؛ ایسے کوئی بھی معاملے کا احاطہ کرے جو اسٹیٹ لسٹ میں شامل ہے، بشرطیکہ ایسا کرنا محدود مدت کیلئے ’’قومی مفاد میں ضروری یا مناسب ہو (آرٹیکل 249)؛ اور کسی بھی معاملے پر قانون سازی کرے جبکہ ’’ایمرجنسی نافذ ہو‘‘ (آرٹیکل 250)۔ آرٹیکل 258(2) دلچسپ گنجائش ہے۔ پارلیمنٹ کا بنایا گیا کوئی قانون کسی ریاستی حکومت یا اس کے افسروں کو اختیارات عطا کرسکتا اور محصولات عائد کرسکتا ہے، لیکن مرکز کو ایسی صورت میں متفقہ رقم ریاست کو ادا کرنا پڑے گا۔ یہ دفعہ ریاستوں کے اقتدار اعلیٰ، حقوق اور اختیارات کی ٹھوس توثیق ہے۔
بلوں کی منظوری میں عجلت
بی جے پی حکومت (واقعی) مختلف نوعیت کی ہے: یہ ریاستوں کے حقوق کا احترام نہیں کرتی، نہ ہی یہ دستوری حدود یا محاسن کو قبول کرتی ہے۔ بی جے پی حکومت کے وفاقیت کے تئیں عہد کا اندازہ راجیہ سبھا میں بلوں کی عجلت میں منظوری سے لگایا جاسکتا ہے۔ لوک سبھا عوام کا ایوان ہے جبکہ راجیہ سبھا مجلس ریاستیں ہے۔ راجیہ سبھا کے ارکان کی بنیادی ذمہ داری ریاستوں کے مفاد کا تحفظ اور اسے بڑھاوا دینا ہے۔ بلحاظ 2 اگست، لوک سبھا نے رواں سیشن میں 28 بل اور راجیہ سبھا نے 26 بل منظور کئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بل…مکرر کہتا ہوں کہ ایک بل بھی نہیں… اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مشاورت کے عمل سے نہیں گزرا۔ نہ کوئی بل کو تفصیلی تنقیح کیلئے اسٹانڈنگ کمیٹی یا کسی سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کیا گیا۔ ریاستی حکومتوں سے کسی بھی بل پر مشاورت نہیں کی گئی، جن میں وہ بل شامل ہیں جو دستور کی متفقہ فہرست (لسٹ III) میں شامل موضوعات کے بارے میں ہیں اور جو ریاستوں کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں۔ اپوزیشن کی تجویز کردہ کسی ترمیم کو حکومت نے قبول نہیں کیا ہے۔
چند مثالیں کافی ہوں گی۔ جسٹس پٹاسوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا معاملے میں سپریم کورٹ نے دستور کے آرٹیکل 110 کی وسعت کی وضاحت کردی اور وہ فیصلہ حکومت پر لازم ہے۔ راجیہ سبھا مالیات سے متعلق کوئی بل میں ترمیم نہیں کرسکتا یا اس بل کو ووٹنگ کے ذریعے ختم نہیں کرسکتا ہے؛ وہ صرف سفارشات کرتے ہوئے بل کو واپس لوک سبھا سے رجوع کرسکتا ہے جو ہوسکتا ہے سفارشات کو قبول کرے یا نہ کرے۔ صدرجمہوریہ کسی ’مَنی بل‘ کو منظوری روکے نہیں رکھ سکتے یا اسے نظرثانی کیلئے پارلیمنٹ کو لوٹا نہیں سکتے ہیں۔ ان پابندیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مگر آرٹیکل 110 کی کھلی خلاف ورزی میں حکومت نے کم از کم دس غیرمالیاتی قوانین میں فینانس (نمبر 2 ) بل کے ذریعے ترامیم کرلئے اور اس طرح راجیہ سبھا کی جانب سے تنقیح یا صدر کی طرف سے نظرثانی کی ہدایت کا سامنا کرنے سے صاف بچ گئی۔
قانون حق معلومات 2005ء کی ہر گوشہ نے ترقیاتی قانون سازی قرار دیتے ہوئے ستائش کی ہے۔ اس ایکٹ کا سیکشن 15 ریاستی حکومت کو اسٹیٹ انفرمیشن کمیشن تشکیل دینے کا مجاز گردانتا ہے۔ ریاستی حکومت اسٹیٹ انفرمیشن کمشنرز منتخب اور مقرر کرے گی۔ ابتدائی میعادِ عہدہ پانچ سال رکھی گئی۔ ابھی تک تنخواہیں، بھتے اور اُن کی سرویس کے دیگر قواعد کار کی صراحت کرنے کا اختیار ریاستی حکومت کو تفویض تھا (سیکشن 16)۔ اب، ابتدائی میعاد اور تنخواہیں، الاؤنس اور دیگر قواعد و شرائط طے کرنے کا اختیار مرکزی حکومت نے ہتھیا لیا ہے! ہم نے پوچھا، کیوں؟ کوئی جواب نہیں۔نیشنل میڈیکل کمیشن بل تو ریاستوں کی ازحد ہتک ہے۔ طبی تعلیم فراہم کرنے اور اسے باقاعدہ بنانے کیلئے ریاستی حکومت کو حاصل ہر اختیار چھین لیا گیا، اور ہر ریاست کو چار سال میں ایک مرتبہ اس کمیشن کے ممبر کی حیثیت سے صرف دو سالہ میعاد چھوڑ دی گئی ہے! یہ ایسا ہی ہے جیسے میڈیکل ایجوکیشن کے معاملے کو List III سے List I کو منتقل کردیا گیا ہے۔ پھر بھی اسے ریاستوں کی طرف سے کوئی احتجاج کے بغیر کونسل آف اسٹیٹس میں منظوری مل گئی!
خوشامد، ڈرانا، دھمکانا …
کس طرح حکومت راجیہ سبھا میں بلوں پر ووٹنگ جیتنے میں کامیاب ہورہی ہے؟ مسلم خواتین (تحفظ حقوق برائے شادی) بل یعنی تین طلاق بل کی مثال لیجئے۔ حکومت نے اس پر رائے دہی 99-84 سے جیت لی کیونکہ اپوزیشن کے 46 ارکان ووٹنگ کے وقت غیرحاضر رہے! بی ایس پی کا کوئی ممبر موجود نہ تھا، 6 ایس پی ارکان غیرحاضر رہے، این سی پی کے 4 میں سے 2 ممبرز ایوان میں نہیں تھے، ایک کانگریس رکن اُسی روز مستعفی ہوا (اور اگلے روز بی جے پی میں شامل ہوگیا) اور چار کانگریس ارکان غیرموجود رہے۔ آل انڈیا انا ڈی ایم کے، جے ڈی (یو)، ٹی آر ایس اور پی ڈی پی (جس نے اس بل کے خلاف کہا تھا) ووٹنگ کے وقت غائب ہوگئے!
منتشر کرنا، خوشامد کرنا، ڈرانا ، دھمکانا یا ’معاملتیں‘ کرلینا… بی جے پی نے ہر چال کو استعمال کیا تاکہ قوانین منظور ہوجائیں، جو ریاستوں کو میونسپل اڈمنسٹریشنس تک محدود کردیں گے اور واحدیت … ہر چیز کیلئے ایک حکومت کے ناپاک خیال میں ایک اور پہلو جوڑیں گے۔