وقف قانون …عید کی خوشیاں بھی برداشت نہیں
چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار …مسلمانوں کے دوست نما دشمن
رشیدالدین
’’سوغاتِ مودی‘‘ رمضان المبارک کے دوران مودی حکومت کی جانب سے 32 لاکھ غریب مسلمانوں کو جب اناج کے کٹس تقسیم کئے جارہے تھے، اُسی وقت ہمیں خطرہ منڈلاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ گزشتہ ہفتہ ہم نے لکھا تھا کہ مودی بدل گئے یا پھر کوئی نئی سازش ہے۔ نریندر مودی سے مسلمانوں کی ہمدردی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مودی کے ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ مودی اور مسلمانوں سے ہمدردی دونوں یکجا نہیں ہوسکتے۔ گجرات کے چیف منسٹر سے لے کر وزارت عظمیٰ کے سفر تک اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے 10 سال کے دوران مودی نے کبھی بھی مسلمانوں سے ہمدردی نہیں کی۔ عیدالفطر سے قبل ’’سوغاتِ مودی‘‘ کے ذریعہ غریب مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کسے پتہ تھا کہ نریندر مودی غیر محسوس طریقہ سے عید کی خوشیاں بھی چھین لیں گے۔ مسلمان عیدالفطر کی خوشیاں منارہے تھے کہ اچانک لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پیش کردیا گیا اور ایک ہی دن میں منظوری حاصل کرلی گئی۔ سوغاتِ مودی اچانک سوغاتِ وقف بل میں تبدیل ہوگئی۔ عیدالفطر کا تیسرا دن تھا کہ لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کے ذریعہ عید کی خوشیوں کو غم میں تبدیل کردیا گیا۔ لوک سبھا کے فوری بعد دوسرے دن راجیہ سبھا میں وقف بل کو منظوری دی گئی۔ دونوں ایوانوں میں عددی طاقت کی بنیاد پر وقف بل کو منظوری دی گئی اور بل سے متعلق مسلمانوں کے اندیشوں اور جذبات کو نظرانداز کردیا گیا۔ دراصل نریندر مودی کو مسلمانوں کی خوشی برداشت نہیں ہے اِسی لئے عیدالفطر کے فوری بعد وقف بل کی پیشکشی کا فیصلہ کیا گیا۔ ہر دور میں بعض ایسی شخصیتیں گزری ہیں جو کسی کی خوشی کو برداشت نہیں کرپاتیں۔ مودی کا ایجنڈہ تو مسلم اور اسلام دشمنی کا ہے لہذا اُن سے ہمدردی کی توقع کرنا فضول ہے۔ وقف بل عید سے قبل بھی پیش کیا جاسکتا تھا لیکن جس دن کا انتخاب کیا گیا وہ محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ خوشی کے موقع پر تکلیف دینا کوئی نریندر مودی سے سیکھے۔ واہ رے مودی کیا سوغات پیش کی مسلمانوں کو، یہ تو سوغاتِ خوشی سے سوغاتِ غم میں تبدیل ہوگئی۔ کٹر سے کٹر سنگ دل انسان بھی کسی کی خوشی کو غم اور دُکھ میں تبدیل نہیں کرتا لیکن جس کا شیوہ اور وطیرہ ہی مسلم دشمنی ہو اور جن کا ایجنڈہ نفرت پر مبنی ہو اُن سے کیا توقع کی جائے گی۔ ہمیں تو اکثر گجرات کے احسان جعفری یاد آجاتے ہیں جن سے ہمدردی کی مودی نے مثال قائم کی تھی۔ فسادی اور حملہ آوروں نے جب احسان جعفری کے گھر کو گھیر لیا تو کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ نے مدد کے لئے اُس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کو اِس اُمید کے ساتھ فون کیاکہ وہ پولیس کو روانہ کریں گے۔ مودی نے مدد یا ہمدردی کے بجائے اُلٹا بُرا بھلا کہتے ہوئے فون کٹ کردیا تھا۔ اُس کے بعد احسان جعفری اور اُن کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا دنیا کے سامنے ہے اور آج تک بھی ذکیہ جعفری کو انصاف نہیں ملا۔ احسان جعفری پر احسان کرنے والے نریندر مودی نے ملک کے مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کی تباہی کا قانون منظور کیا ہے جو سوغاتِ مودی ہے۔ ملک میں کئی مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں لیکن گزشتہ 10 برسوں میں مودی حکومت نے صرف مسلمانوں کی بھلائی کی فکر کی۔ مسلم خواتین سے انصاف کے لئے طلاق ثلاثہ کو ختم کردیا اور اب غریب مسلمانوں کے نام پر وقف جائیدادوں کی تباہی کے فرمان پر دستخط کئے گئے۔ شیوسینا کے سنجے راوت نے کیا خوب کہاکہ مودی نے ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں سے ہمدردی کی ہے۔ محمد علی جناح نے بھی مسلمانوں کے بارے میں اتنا نہیں سوچا ہوگا جتنا نریندر مودی نے غریب مسلمانوں کی فکر کی ہے۔ دراصل غریب مسلمانوں کی آڑ میں مسلمانوں کی جائیدادوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ مودی کے غرور اور تکبر اور مسلم مخالف ذہنیت کا عروج اُس وقت دیکھنے کو ملا جب نریندر مودی وقف بل پر مباحث اور منظوری کے وقت پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھے۔ وہ دراصل بل کی مخالفت میں ایک لفظ بھی سننے تیار نہیں تھے لہذا امیت شاہ کو ذمہ داری دے کر وہ ایوان سے غیر حاضر رہے۔ مسلمانوں اور اُن کے مسائل کی نریندر مودی کے پاس کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ جب بھی کسی اہم اور سلگتے مسئلہ پر عوام کی توجہ کو موڑنا مقصود ہوتو کوئی متنازعہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل سے عوام پریشان ہیں لیکن ہندو مسلم، مندر مسجد یا پھر کسی مخالف مسلم ایجنڈہ کو آگے کرتے ہوئے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹادی جاتی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جس دن ہندوستان کے خلاف ٹیرف کا اعلان کرنا تھا اُسی دن وقف بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا۔ اب کی بار ٹرمپ سرکار اور مائی ڈیئر فرینڈ جیسے دعوے بھی کام نہیں آئے اور ٹرمپ نے مودی کو اُن کا مقام دکھادیا۔ مودی کی سیاسی زندگی میں اگر کوئی استاد ملا ہے تو وہ ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ امریکہ میں ساتھ بٹھاکر ٹرمپ نے مودی کو ’’ٹیرف کنگ‘‘ کہا، لیکن شاید نریندر مودی انگلش سمجھ نہیں پائے اور صرف لفظ ’’کنگ‘‘ سن کر خوش ہونے لگے کہ ٹرمپ نے اُنھیں بادشاہ کہا ہے۔ حالانکہ ٹرمپ کا اشارہ زائد ٹیکس کی طرف تھا۔ ٹرمپ نے جوابی ٹیکس عائد کرتے ہوئے ہندوستانی اشیاء پر 26 فیصد ٹیرف عائد کردیا لیکن مودی نے بے عزتی سے بچنے کے لئے قوم کو وقف بل میں اُلجھاکر رکھ دیا۔ سینکڑوں ہندوستانیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہتھکڑی اور بیڑی کے ساتھ ذلیل کیا گیا اور فوجی طیارہ میں اُنھیں وطن واپس کیا گیا لیکن مودی نے ملک کی اِس بے عزتی کو بھی برداشت کرلیا۔ اگر یہی بے عزتی اور 26 فیصد ٹیرف کانگریس دور حکومت میں ہوتا تو بی جے پی آسمان سر پر اُٹھالیتی اور حب الوطنی کا درس دینے لگتی۔
وقف قانون کی منظوری سے قبل اُمید کی جارہی تھی کہ سیکولرازم اور مسلمانوں سے ہمدردی کے دعویدار چندرابابو نائیڈو، نتیش کمار، چراغ پاسوان اور جینت چودھری بل کی پیشکشی میں اہم رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار نے مسلمانوں کو بھروسہ دلایا تھا کہ وہ وقف قانون کو منظوری ہونے نہیں دیں گے لیکن اقتدار اور سیاسی مجبوریوں نے مسلمانوں کے مسائل کو پست پشت ڈال دیا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے دوست نما دشمنوں کی دھوکہ دہی کے نتیجہ میں وقف قانون منظور ہوا ہے۔ چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار کو اپنی حکومتوں کو بچانے اور ترقیاتی اسکیمات کے لئے فنڈس کی ضرورت ہے۔ نتیش کمار کو جاریہ سال انتخابات کا سامنا ہے اور اُنھیں یقین ہے کہ بی جے پی کا ہاتھ تھام کر وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرلیں گے۔ چندرابابو نائیڈو ہوں یا نتیش کمار اُن پر بھروسہ کرنا مسلمانوں کی ہمیشہ نادانی رہی ہے۔ یہ دونوں سابق میں بھی بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کرچکے ہیں اور جب دوری اختیار کی تو مسلمانوں کے درمیان آکر اعلان کیا تھا کہ دوبارہ بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ بی جے پی اور مسلمان اِن دونوں کو وقتاً فوقتاً جب بھی ضرورت پڑی اِن قائدین نے استعمال کیا۔ انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ چاہئے اور اقتدار ملنے کے بعد حکومت چلانے کے لئے مرکز سے فنڈس؟ دعوت افطار میں چندرابابو نائیڈو اور نتیش کمار نے مسلمانوں کو بھروسہ دلایا تھا کہ وہ وقف قانون میں شامل تمام متنازعہ اُمور سے دستبرداری کے لئے مرکز پر دباؤ بنائیں گے۔ اب جبکہ نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو دونوں بے نقاب ہوچکے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آندھراپردیش اور بہار کے مسلمانوں کا کیا ردعمل رہے گا۔ مسلمان فطرتاً معصوم اور بھولے ثابت ہوئے ہیں اور وہ الیکشن تک دوبارہ نتیش کمار کی باتوں کا شکار ہوجائیں گے اور بہار کی بعض مذہبی شخصیتیں بھی اِس کام میں اُن کی مدد کرسکتی ہیں۔ اب جبکہ وقف قانون منظور ہوچکا ہے، تلگودیشم اور جنتادل یونائیٹیڈ کے مسلم قائدین کو طے کرنا ہوگا کہ وہ آخر کس کے ساتھ ہیں۔ وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے یا پھر بی جے پی سے دوستی کو برقرار رکھیں گے۔ نام نہاد سیکولر طاقتوں کی دھوکہ دہی اپنی جگہ ہے لیکن قانون کی منظوری کے بعد ملک کے مسلمانوں میں بے حسی بھی عروج پر ہے۔ قانون سازی سے قبل مسلم تنظیموں نے بڑے بڑے اعلانات کئے لیکن سڑکوں پر نکل کر احتجاج کی دھمکی دی لیکن لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں قانون کی منظوری کے بعد ایک چوہا بھی اپنی بِل سے باہر نہیں نکلا۔ جب مسلمان خود اپنے مذہبی شعائر کے بارے میں بے حس ہوں تو پھر غیروں سے مدد کی اُمید کرنا فضول ہے۔ مسلمانوں کو کسانوں سے سبق لینا چاہئے جنھوں نے مودی حکومت کو مخالف کسان قوانین واپس لینے پر مجبور کردیا تھا۔ ملک کے قبائل بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت کو مجبور کردیا کہ یکساں سیول کوڈ کے دائرے سے قبائل کو مستثنیٰ رکھا جائے۔ مسلمان ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود اپنی طاقت کو منوانے میں ناکام ہیں۔ اگرچہ اِس کی کئی وجوہات ہیں جس میں مسلم مذہبی ، سیاسی اور سماجی قیادت بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ مسلمانوں کی بے حسی کا یہ عروج آنے والے دنوں میں یکساں سیول کوڈ اور ہندو راشٹر کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ وقف قانون پر اعتراض اپنی جگہ لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وقف اداروں کے ٹھیکیداروں نے اپنی بدعنوانیوں کے ذریعہ مرکزی حکومت کو قانون سازی کی دعوت دی۔ اوقافی اداروں سے غریب مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہونچا یہی وجہ ہے کہ عام مسلمانوں کو وقف قانون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ الغرض ظلم آخر ظلم ہی ہے اور حکمرانوں کو اِس کا حساب ضرور دینا ہوگا۔ نامور شاعر والی آسی نے کیا خوب ہے کہا ہے ؎
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹادے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے