نئی دہلی : وقف (ترمیمی) بل 2024 پر پارلیمانی مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ پیر 3 فروری کو لوک سبھا میں پیش کی جائے گی۔دریں اثنا، پینل کے ایک اپوزیشن رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اختلافی نوٹ کے کچھ حصے ان کی رضامندی کے بغیر چھوڑ دیے گئے تھے۔ایوان کی کارروائی کی فہرست کے مطابق وقف (ترمیمی) بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے چیئرمین جگدمبیکا پال، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنجے جیسوال کے ساتھ رپورٹ پیش کریں گے۔رپورٹ کو ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں پیش کیا جائے گا اور اس کے ساتھ دستاویزی ثبوت بھی کمیٹی کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔کمیٹی پہلے ہی 30 جنوری کو لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو رپورٹ پیش کر چکی ہے۔جے پی سی نے رپورٹ کا مسودہ اور ترمیم شدہ بل چہارشنبہ 29 جنوری کو اپنے آخری اجلاس میں ندائی ووٹ کے ذریعہ منظور کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈروں نے رپورٹ پر اختلافی نوٹ پیش کیا۔کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین جو کمیٹی کے ایک رکن ہیں نے الزام لگایا ہے کہ بل پر ان کے اختلافی نوٹ کے کچھ حصوں کو ان کے علم میں لائے بغیر تبدیل کر دیا گیا۔اسے اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے حسین نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ وقف (ترمیمی) بل 2024 پر مشترکہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے بل کی مخالفت میں ایک تفصیلی اختلافی نوٹ پیش کیا تھا۔ حیران کن طور پر ان کے اختلافی نوٹ کے کچھ حصہ میں ان کے علم میں لائے بغیر ترمیم کی گئی ہے!مشترکہ کمیٹی برائے وقف (ترمیمی) بل کی جانب سے پہلے ہی بل کو ایک مذاق بنا دیا گیا تھا لیکن اب وہ اس سے بھی نیچے جھک گئے ہیں ۔ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ کی اختلافی آوازوں کو سنسر کرتے ہوئے! وہ کس چیز سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں؟ انہو نے سوال کیا کہ ہمیں خاموش کرنے کی یہ کوشش کیوں؟ ۔کمیٹی نے پہلے وقف بل 1995 میں 14 شقوں اور سیکشنز میں 25 ترامیم کے ساتھ ترمیم کی منظوری دی تھی۔1995 کا وقف ایکٹ‘ وقف املاک کو منظم کرتا ہے اور اس پر بدانتظامی اور تجاوزات جیسے مسائل کے لیے تنقید کی جاتی رہی ہے۔وقف (ترمیمی) بل 2024 اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کرتا ہے بشمول ڈیجیٹلائزیشن، بہتر آڈٹ اور مقبوضہ جائیدادوں کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے قانونی طریقہ کارلیکن کمیٹی نے اپوزیشن ارکان کی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے برسر اقتدار کے ارکان کی تجاویز کو منظوری دی۔ مختلف مسلم قائدین اور تنظیموں کی جانب سے وقف ترمیمی بل کی مسلسل مخالفت کی جارہی ہے ۔ کئی ارکان پارلیمنٹ نے بھی ایوان میں اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے ۔