وقف ترمیمی بل مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی خودمختاری پر حملہ‘عام آدمی پارٹی قائد کا الزام
نئی دہلی: وقف (ترمیمی) بل کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج مسلسل شدت اختیار کر رہا ہے۔ اب عام آدمی پارٹی بھی اس بل کے خلاف میدان میں آ گئی ہے۔ دہلی کے اوکھلا حلقہ سے ایم ایل اے اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے اس متنازعہ بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔امانت اللہ خان کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی خودمختاری پر حملہ ہے۔ ان کے مطابق یہ بل اقلیتوں کے اْن بنیادی حقوق کو متاثر کرتا ہے جن کے تحت وہ اپنے مذہبی اور رفاہی اداروں کا انتظام چلاتے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بل کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کیا جائے۔واضح رہے کہ یہ بل 2 اور 3 اپریل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تقریباً 12‘12 گھنٹے کی طویل بحث کے بعد منظور کیا گیا۔ لوک سبھا میں اس کے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے، جب کہ راجیہ سبھا میں 128 ووٹ بل کے حق میں اور 95 مخالفت میں پڑے۔ اب یہ بل منظوری کیلئے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجا جائے گا۔امانت اللہ خان سے قبل کانگریس کے رکن پارلیمان اور بہار کے کشن گنج سے ایم پی محمد جاوید بھی اس بل کے خلاف عدالت پہنچ چکے ہیں۔ محمد جاوید اس بل پر بنائی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ ان کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ وقف ترمیمی بل وقف املاک اور ان کے انتظام پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتا ہے جو آئین کے مطابق مذہبی آزادی کے منافی ہے۔ ان کی پیروی معروف وکیل انس تنویر کر رہے ہیں۔اسی طرح آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے بھی اس بل کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے اپنی عرضی میں دلیل دی ہے کہ اس بل کے مختلف دفعات مسلم برادری کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بل کے ذریعہ حکومت وقف املاک پر اپنے اختیارات بڑھا رہی ہے جو اقلیتوں کے آئینی تحفظات کے خلاف ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق جس انداز میں اپوزیشن جماعتیں اس بل کے خلاف عدالت کا رخ کر رہی ہیں اس سے واضح ہے کہ یہ مسئلہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ امکان ہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور حکومت کے دائرہ کار پر ایک اہم بحث چھڑے گی۔دریں اثنا، مختلف مسلم تنظیموں نے بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بل کا مقصد وقف املاک پر حکومتی کنٹرول کو بڑھانا اور مسلم اداروں کو بے اختیار بنانا ہے۔