وقف بل کی طاقت کی بنیاد پر منظوری غیر دستوری : ڈاکٹر نارائنا

   

عوامی احتجاج کی تائید، گچی باؤلی اراضی کا موجودہ موقف برقرار رکھنے کا مشورہ
حیدرآباد 4 اپریل (سیاست نیوز) سی پی آئی قومی سکریٹری ڈاکٹر کے نارائنا نے کہاکہ کنچا گچی باؤلی اراضی تنازعہ پر سی پی آئی حکومت کو اپنے موقف سے آگاہ کرے گی لیکن اِس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ حکومت تجاویز قبول کرے گی۔ نئی دہلی میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر نارائنا نے کہاکہ سی پی آئی اراضی کے تحفظ کے سلسلہ میں تلنگانہ حکومت کو اپنی تجاویز پیش کردے گی۔ اُنھوں نے کہاکہ اراضی کا یہ تنازعہ سیاسی مداخلت کے نتیجہ میں نیا رُخ اختیار کرچکا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کے لئے طلبہ کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر نارائنا نے کہاکہ سیاست میں کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ اندرا گاندھی دور حکومت میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کو اراضی الاٹ کی گئی تھی۔ اراضی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کے بعد سے کئی افراد کی نظریں کنچا گچی باؤلی اراضی پر مرکوز ہوچکی ہیں۔ آنجہانی وائی ایس راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں کیر ہاسپٹل کے انتظامیہ نے اراضی حوالہ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن حکومت نے انکار کردیا تھا۔ ڈاکٹر نارائنا نے تجویز پیش کی کہ یونیورسٹی کے اطراف کی اراضی کو تعلیمی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ سابق بی آر ایس حکومت نے سرکاری اراضیات کی فروخت کی روایت شروع کی تھی لیکن آج وہ گچی باؤلی اراضی کی فروخت کی مخالفت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر نارائنا نے بی آر ایس پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام عائد کیا اور کہاکہ عدالت سے یہ اراضی حکومت کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ اراضی حکومت کی ہے اور چیف منسٹر ریونت ریڈی کی ذاتی نہیں ہے۔ ڈاکٹر نارائنا نے مطالبہ کیاکہ تلنگانہ حکومت اراضی کے معاملہ میں کوئی مداخلت نہ کرے اور اُس کے موجودہ موقف کو برقرار رکھا جائے۔ اُنھوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں کے اطراف تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دینا ٹھیک نہیں ہے۔ وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے سی پی آئی قومی سکریٹری نے کہاکہ بل کی منظوری سے ملک میں سیکولر نظریات کو نقصان ہوسکتا ہے کیوں کہ بی جے پی حکومت مذہبی اساس پر سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں عددی طاقت کی بنیاد پر بی جے پی بل کو منظوری دینے میں کامیاب رہی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اپوزیشن کی مخالفت کو نظرانداز کردیا گیا اور مسلمانوں نے بل کے بارے میں جن اندیشوں کا اظہار کیا تھا اُنھیں بھی قبول نہیں کیا گیا۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر طاقت کی بنیاد پر قوانین منظوری کئے جانے لگیں تو دستور کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ ڈاکٹر نارائنا نے کہاکہ پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کے باوجود عوامی سطح پر وقف بل کے خلاف احتجاج جاری رہے گا اور سی پی آئی احتجاج کی تائید کرے گی۔1