وقف جائیدادوں کی تباہی کی سی بی آئی ، سی آئی ڈی یا جج سے تحقیقات کا مطالبہ
حیدرآباد۔13مارچ(سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ ریاستی وقف بورڈ کو بند کردے یا اس ادارہ میں دیانتدارعہدیداروں کے تقرر کو یقینی بنائے۔حکومت وقف جائیدادوں کی تباہی کی سی بی آئی ‘ سی آئی ڈی یا موظف ہائی کورٹ جج کے ذریعہ تحقیقات کروائے۔ قائد اپوزیشن جناب اکبر الدین اویسی نے مطالبات زر مباحث کے دوران وقف بورڈ کی تباہی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت پر مجلس تنقید برائے تعمیر کرتی ہے اور وقف بورڈ کی تباہی کے مسئلہ پر وہ 1999 سے نمائندگی کررہے ہیں۔ انہو ںنے بتایا کہ ریاست میں کروڑہا روپئے کی اوقافی جائیدادیں موجود ہیں جو تباہ ہورہی ہیں لیکن نااہل عہدیداروں کی وجہ سے ان جائیدادوں کی حفاظت نہیں ہورہی ہے۔ انہو ںنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ریاستی حکومت کے دیگر محکمہ جات کی جانب سے وقف بورڈ کے ساتھ جو عدالتی چارہ جوئی اور مقدمہ بازی ہورہی ہے اسے فوری ختم کیا جائے اور تمام مقدمات سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے وقف بورڈ کی جائیدادیں وقف بورڈ کے حوالہ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ ریاست کے تمام اضلاع کے کلکٹرس کا اجلاس صرف وقف کی جائیدادوں کی تفصیلات کے ساتھ منعقد کیا جائے ۔ انہو ںنے ریاست میں تلنگانہ وقف کونسل کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں وقف کونسل کے ذریعہ کئی اہم جائیدادوں کی ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اکبر الدین اویسی نے وقف بورڈ میں ملازمین کو دی گئی ترقی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ میں تیسری جماعت پاس شخص کو 54ہزار33 روپئے تنخواہ پر مامور رکھا گیا ہے اسی طرح بورڈ میں ایس ایس سی تک تعلیم حاصل کرنے والے ملازمین کو اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر ترقی دی گئی ہے اورجو عہدوں کے اہل ہی نہیں ہیں انہیں عہدوں پر ترقی فراہم کرتے ہوئے لاکھوں روپئے تنخواہیں جاری کی جا رہی ہیں اور یہ سب ایک قرارداد کی منظوری کے ساتھ کیا جا رہاہے۔ قائد اپوزیشن نے بتایا کہ وقف بورڈ کی ملکیت میں کوئی گاڑی نہیں ہے لیکن وقف بورڈ کے پاس دو ڈرائیور ہیں جن کی تنخواہ فی کس 51 ہزار دی جا رہی ہے۔انہو ںنے ریاست میں اقلیتی اقامتی اسکولوں کیلئے سرکاری جگہ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں اوقافی جائیدادوں کو حوالہ کرتے ہوئے ان پر ذاتی عمارتو ںکی تعمیر کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔اکبر الدین اویسی نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود نظام کے رباط کو حکومت تلنگانہ کی جانب سے حاصل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مقامات مقدسہ میں موجود یہ رباط نظام کے ذاتی نہیں ہیں بلکہ ریاست حیدرآباد کی آمدنی سے خریدے گئے تھے اسی لئے ان پر حکومت تلنگانہ کا حق بنتا ہے۔انہو ںنے ریاست میں اقلیتی ریسرچ سنٹر کے قیام کے علاوہ اقلیتی صنعتی ترقیاتی کارپوریشن کے قیام کا بھی مطالبہ کیا ۔