سلطان بازار میں 10 ملگیات کا کرایہ فی کس 10 ہزار ، درپردہ معاملت پر راز کے پردے، مسلمانوں میں بے چینی
حیدرآباد ۔11۔ ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کی تباہی اور وقف بورڈ کو نقصانات کیلئے غیروں سے زیادہ خود اپنے ذمہ دار ثابت ہوئے ہیں۔ اوقافی املاک سے بہتر کرایہ حاصل کرتے ہوئے وقف بورڈ کی جانب سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر رقومات خرچ کرنے کے وعدے تو بہت کئے گئے لیکن کئی معاملات میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جن افراد کو وقف بورڈ میں محافظ کے طور پر شامل کیا گیا تھا، انہوں نے نہ صرف بورڈ کے مفادات کے خلاف کام کیا بلکہ اوقافی جائیدادوں کو غیر کے ہاتھ میں دینے کی کارروائی کی۔ وقف بورڈ کی قیمتی اراضیات اور جائیدادوں کے کرایہ انتہائی معمولی ہیں۔ شہر کے اہم ترین تجارتی علاقوں میں وقف بورڈ کی ملگیات کا کرایہ چند سو روپئے ادا کیا جاتا ہے اور سابق میں کرایہ میں اضافہ کے لئے مہم چلائی گئی تھی لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ ملت کا درد رکھنے والی شخصیتوں نے اپنی جائیدادوں اور اراضیات کو محض اس لئے وقف کیا کہ اس کی آمدنی سے غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچے۔ کئی اہم جائیدادوں کے منشائے وقف نے غریبوں کیلئے خدمت کا تذکرہ شامل ہے۔ حیدرآباد کے مصروف تجارتی علاقہ سلطان بازار میں تکیہ مخدوم علی شاہ وقف کے تحت 10 ملگیات ہیں اور 1954 ء میں یہ ملگیات کھادی گرام ادیوگ سمیتی کے سکریٹری سری سیلم کو لیز پر دی گئی تھی۔ لیز ہولڈر 10 ملگیات کے کرایہ داروں سے زائد رقم وصول کرتے ہوئے وقف بورڈ کو معمولی کرایہ ادا کر رہا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ سری سیلم کے دیہانت کے بعد سے کرایہ داروں نے کرایہ کی ادائیگی روک دی اور وقف بورڈ سے راست رجوع ہوتے ہوئے انہیں کرایہ دار بنانے کی درخواست کی۔ کرایہ داروں نے مارکٹ ریٹ کے حساب سے کرایہ ادا کرنے کا بھی پیشکش کیا تھا۔ سری سیلم کی دختر ایس للیتا نے 2016 اور پھر 2020 ء میں وقف بورڈ میں درخواستیں داخل کرتے ہوئے والد کی جگہ انہیں لیز ہولڈر مقرر کرنے کی اپیل کی۔ اس تنازعہ کی یکسوئی میں تاخیر کے سبب وقف بورڈ کو ملگیات کا کرایہ بڑھتا گیا اور 3 اگست 2022 ء تک کرایہ کے بقایہ جات 3758663 روپئے ہوگئے ۔ وقف بورڈ کی جانب سے کرایہ کی ادائیگی کے لئے نوٹس جاری کی گئیں جس میں اندرون ایک ہفتہ بقایہ جات ادا کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اسی دوران وقف بورڈ کے رکن اور مجلس کے رکن اسمبلی کوثر محی الدین نے 7 ستمبر 2022 ء کو چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے ایس للیتا کے نام پر لیز اگریمنٹ کی تجدید اور ماہانہ دس ہزار روپئے کرایہ مقرر کرنے کی سفارش کی ۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کے بعض ذمہ داروں نے 37 لاکھ کے بقایہ جات میں سے محض دس لاکھ روپئے ادا کرنے کی سفارش کی جسے بورڈ میں منظوری دی گئی۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اوقافی جائیدادوں کی آمدنی میں اضافہ کے بجائے اس معاملہ میں وقف بورڈ کو تقریباً 27 لاکھ روپئے کا نقصان ہورہا ہے جس کے لئے خود بورڈ کے بعض افراد ذمہ دار بتایئے جاتے ہیںؤ ر کن اسمبلی نے اپنے مکتوب میں بقایہ جات کے بارے میں بورڈ کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ درخواست گزار نے چار لاکھ روپئے ادا کردیئے ہیں اور باقی دس لاکھ روپئے اندرون 6 ماہ ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ وقف بورڈ میں ماہانہ 10 ہزار روپئے مقرر کرنے کا تیقن دیا کیونکہ مذکورہ خاتون کرایہ میں اضافہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ رکن اسمبلی نے ایس للیتا کی درخواست پر غور کرتے ہوئے لیز اگریمنٹ کی سفارش کی۔ واضح رہے کہ سلطان بازار جیسے مصروف ترین علاقہ میں ایک ملگی کا کرایہ تقریباً 50 ہزار سے کم نہیں ہے لیکن وقف بورڈ نے محض دس ہزار روپئے مقر ر کئے اور پھر 27 لاکھ روپئے کے بقایہ جات معاف کردیئے گئے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وقف بورڈ کی تمام دس ملگیات کے کرایہ داروں کا تعلق اکثریتی طبقہ سے ہے۔ وقف بورڈ نے 30 مئی 2023 ء کو میمو جاری کیا جس میں رکن اسمبلی کاروان کے مکتوب کا حوالہ دیا گیا۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ رکن اسمبلی کوثر محی الدین کی سفارش کو صدرنشین وقف بورڈ کے روبرو پیش کیا گیا اور ایس للیتا کے حق میں کرایہ نامہ ماہانہ دس ہزار روپئے کے حساب سے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میمو میں بتایا گیا کہ 10 لاکھ کے منجملہ4 لاکھ روپئے ادا کردیئے گئے باقی 4 لاکھ روپئے اندرون 6 ماہ ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ۔ اس معاملہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقف بورڈ اجلاس میں فیصلہ کرنے کے بجائے صدرنشین اور بعض ارکان نے ا پنے طور پر فیصلہ کرلیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 37,58,663 روپئے میں محض 10 لاکھ روپئے وصول کرنے کا فیصلہ آخر کس کی سفارش پر کیا گیا اور بورڈ کو لاکھوں روپئے نقصان کیلئے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وقف بورڈ سلطان بازار کی قیمتی جائیداد کو راست اپنی نگرانی میں لے کر اوپن آکشن کے تحت کرایہ کے لئے الاٹ کرتا جس سے وقف بورڈ کو لاکھوں روپئے آمدنی حاصل ہوسکتی تھی۔
زندگی قدرت کا انتہائی
قیمتی عطیہ : ڈی جی پی
حیدرآباد ۔ 11 ستمبر (سیاست نیوز) ڈی جی پی انجنی کمار نے کہا کہ زندگی قدرت کا انتہائی قیمتی عطیہ ہے۔ کوئی ایک خراب حالت سے دوچار ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی ختم ہوگئی ہے۔ ڈی جی پی نے ورلڈ سوسائیڈ پریوینشن ڈے (عالمی یوم انسداد خودکشی) کے موقع پر کل یہاں گچی باؤلی اسٹیڈیم پر ہنس مراتھان میں ونرس کو انعامات حوالہ کئے۔ اپنے پیام میں ڈی جی پی نے کہا کہ زندگی میں ہمیشہ چیالینجز ہوں گے اور مشکل حالات پیش آئیں گے لیکن ان پر قابو پانا ہوگا۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں اور ہمیں مشکل حالات پر قابو پانا ہوگا اور اس طرح کے حالات پر قابو پانے کیلئے ہم کو ایک دوسرے کی مدد کرنا ہوگا۔