وقف ترمیمی بل ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش: عامر علی خاں

   

دیگر اقلیتی ادارے بھی نشانہ بن سکتے ہیں، ہندوستان کی تاریخ کا ’ یوم سیاہ‘ ، جدوجہد اب سڑکوں پر ہوگی
چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کو مسلمان معاف نہیں کریں گے، عظمت اللہ حسینی، طاہر بن حمدان، عبید اللہ کوتوال اور ایم اے فہیم کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔/3اپریل، ( سیاست نیوز) کانگریس پارٹی کے اقلیتی قائدین نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی منظوری پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا’ یوم سیاہ‘ قرار دیا۔ کانگریس قائدین نے کہا کہ مودی حکومت کی غیر جمہوری اور غیر دستوری پالیسیوں کے خلاف جدوجہد پارلیمنٹ سے نکل کر سڑکوں تک پہنچ جائے گی اور وقف ترمیمی بل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کیا جائے گا۔ کانگریس رکن قانون ساز کونسل جناب عامر علی خاں، صدرنشین تلنگانہ وقف بورڈ جناب عظمت اللہ حسینی، صدرنشین اقلیتی فینانس کارپوریشن جناب عبید اللہ کوتوال، صدرنشین اردو اکیڈیمی جناب طاہر بن حمدان اور صدرنشین تلنگانہ فوڈس جناب ایم اے فہیم نے آج حج ہاوز میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ نریندر مودی حکومت مذہبی بنیادوں پر سماج کو تقسیم کرنے کی سازش کررہی ہے۔ وقف ترمیمی بل کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کو مذہبی اساس پر تقسیم کرنا ہے تاکہ بی جے پی کی مذہبی سیاست کو کامیابی ملے۔ جناب عامر علی خاں نے کہا کہ 2014 سے مرکزی حکومت مخالف مسلم ایجنڈہ پر کاربند ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس زیر قیادت انڈیا الائینس کی جانب سے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کے باوجود عددی طاقت کے ذریعہ لوک سبھا میں بل کو منظوری دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں چونکہ عوام کی رائے اور جذبات سے زیادہ سَر گنے جاتے ہیں اسی بنیاد پر لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کو منظوری دی گئی۔ وقف بل کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ آنے والے دنوں میں عیسائی اور دیگر اقلیتی طبقات کے اداروں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ جناب عامر علی خاں نے کہا کہ اقلیتوں کو اپنے اداروں اور حقوق کے تحفظ کیلئے متحد ہونا چاہیئے۔ صدرنشین وقف بورڈ جناب عظمت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف جائیدادوں کے بیجا استعمال سے متعلق بعض واقعات کو بنیاد بناکر نریندر مودی حکومت نے اوقافی اداروں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد سانحہ کے بعد وقف ترمیمی بل کی منظوری مسلمانوں کیلئے دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ مسلمانوں کی بھلائی اور روزگار کی فراہمی کے نام پر مرکزی حکومت نے دستور کی دفعات 25، 26 اور 29 کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستور ہند نے مسلمانوں کو اپنے ادارے چلانے کا اختیار دیا ہے جس کیلئے جمہوری انداز میں احتجاج منظم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وقف دراصل اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور یہ حکومت یا افراد کی ملکیت نہیں ہوسکتی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے قریبی صنعتی گھرانوں کو اوقافی اراضیات حوالے کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا میں انڈیا الائینس کے ذریعہ بل کی مخالفت پر راہول گاندھی سے اظہار تشکر کیا۔ عظمت اللہ حسینی نے این ڈی اے کی حلیف جماعتوں اور خاص طور پر سیکولرازم کی دعویدار تلگودیشم اور جنتا دل یونائٹیڈ سے اپیل کی کہ وہ اپنے موقف پر نظرثانی کریں۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کی تائید کرنے پر چندرا بابو نائیڈو، نتیش کمار، اجیت پوار اور دیگر حلیف قائدین کا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں منفی انداز میں درج ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی اقلیتیں ان نام نہاد سیکولر قائدین اور پارٹیوں کو ہرگز معاف نہیں کریں گی۔ صدرنشین وقف بورڈ نے کہا کہ انڈومنٹ میں جو رعایتیں موجود ہیں انہیں وقف بورڈ میں برقرار رکھنے کیلئے مودی حکومت تیار نہیں ہے۔ وقف ترمیمی بل کا مقصد وقف بورڈ کو ختم کرنا ہے اور اس سازش کے خلاف مسلمان سڑکوں پر احتجاج کیلئے مجبور ہوجائیں گے۔ جناب طاہر بن حمدان ، جناب عبید اللہ کوتوال اور جناب ایم اے فہیم نے بھی وقف ترمیمی بل کی منظوری کی مخالفت کی اور اپوزیشن اور جمہوری طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ متحدہ طور پر بل کی مخالفت کریں۔1