وقف ترمیمی قانون عبوری راحت حکومت کے چہرہ پر طمانچہ

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

عدالتوں سے انصاف کی توقع کی جاتی ہے اور عام آدمی کی اُمیدیں عدالتوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اُس وقت جب حکومت یا حکومتیں چلانے والے اقتدار کے نشہ میں دھت ہوکر عوام کی حق تلفی کرتی ہیں۔ اس کے لئے عدالتیں ہی اُمید کی کرن ہوتی ہیں۔ بہرحال جب عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) یا عدالت العالیہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی قانون کی کسی شق کو کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ کم از کم حکومت اور ارکان پارلیمان کے لئے ہلکی سی تنبیہ ہوتی ہے اور جب کسی بل کی مخالفت اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ دستوری دفعات سے متصادم ہے لیکن حکومت پھر بھی اسے پارلیمنٹ سے منظور کروانے پر زور دیتی ہے اور بالآخر عدالت اسے کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ حکومت کے چہرہ پر ایک طمانچہ کے مترادف ہے۔ اس سے بھی بدتر صورتحال یہ ہوسکتی ہے کہ بل پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جائے اور اس کمیٹی کے کئی ارکان اعتراضات اُٹھائیں لیکن حکومت ان اعتراضات کو نظرانداز کرکے بل منظور کروالے۔ آخر میں جب عدالت اس کے بعض حصوں کو کالعدم قرار دیتی ہے یا معطل کردیتی ہے تو یہ حکومت اور وزارت قانون دونوں کے لئے سب سے بڑی رسوائی اور ناکامی ہوگی۔
دستور سے بالاتر نہیں: یہی کہانی وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی ہے۔ 15 ستمبر 2025 کو سپریم کورٹ نے اس قانون کی کلیدی دفعات پر روک لگادی۔ عدالت کا یہ فیصلہ اگرچہ حکومت کے چہرہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے اور حد تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر وہ خود کو مبارکباد دے رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ عدالت نے مسلم پرسنل لا میں اس (حکومت) کے اصلاحی اقدامات کی توثیق کردی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ عدالت نے ایک بنیادی اسلامی قانون کے بعض حصوں کو روک دیا ہے۔ آپ (انڈین اکسپریس مورخہ 6 اپریل 2025 کی اشاعت) میں میرے کالم کا مطالعہ کیجئے جس میں راقم الحروف نے پارلیمنٹ میں اُٹھائے گئے کئی سوالات کا حوالہ دیا تھا لیکن ان سوالات کے حکومت کے پاس کوئی جوابات نہیں تھے بلکہ وہ ان سوالات کے جوابات دینے کی بجائے مسلسل خاموشی اختیار کی اور بل کی دفعات پر ڈٹی رہی۔ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے عبوری احکامات میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیئے۔
-1 اِس قانون کے تحت کوئی شخص وقف بنانا چاہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پچھلے 5 برسوں سے دین اسلام پر عمل پیرا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی شخص کس طرح ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے؟ سپریم کورٹ نے اس دفعہ (شق F سیکشن 3) کو معطل کردیا جب تک کہ ریاستی حکومت کوئی طریقہ کار وضع نہ کرے کہ کسی شخص نے کم از کم 5 سال سے دین اسلام پر عمل کیا ہے (جبکہ کسی اور مذہب کے پرسنل لا میں ایسی شرط نہیں ہے)
-2 اگر کسی وقف جائیداد کو سرکاری قرار دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ حکومت یا پھر عدالت؟ اگر حکومت خود فیصلہ کرے گی کہ جائیداد سرکاری ہے تو وہ اس کی مالک بھی ہوگی۔ اور یہ منصف بھی خود اور فریق بھی خود والی صورتحال ہوگی۔ عدالت عظمیٰ نے اس دفعہ کو بھی معطل کردیا۔
-3 اگر موقوفہ جائیداد کی رجسٹری میں کوئی غلطی درست کردی جائے تو وقف اپنی ملکیت اپنی کھودے گا۔ ہم نے سوال کیاکہ اگر ایسا ہو تو کیا وقف کی جائیداد ضبط کرکے اس کا نیلام کردیا جائے گا؟ اس کی بولی لگادی جائے گی؟ جواب میں سپریم کورٹ نے کہاکہ ایسا نہیں ہوگا اور جب تک عدالت فیصلہ نہ کرے کوئی کوئی وقف جائیداد ضبط نہیں کی جاسکتی۔
-4 وقف ترمیمی قانون میں یہ بھی کہا گیا کہ وقف بورڈس یا مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم بھی رکن یا چیف ایکزیکٹیو آفیسرس (سی ای او) ہوسکتے ہیں یا بن سکتے ہیں؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے قوانین دوسرے مذاہب کے اداروں پر بھی لاگو ہوں گے؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان اور عیسائی ہندو مذہبی اداروں (ہندو انڈومنٹ) کے سی ای او / تنظیم اور رکن بن سکتے ہیں؟ عدالت نے اس پوری شق کو معطل تو نہیں کیا لیکن حکم دیا کہ مرکزی وقف کونسل کے 22 ارکان میں 4 سے زیادہ غیر مسلم ارکان نہ ہوں جبکہ چیف ایکزیکٹیو آفیسر کے لئے جتنا ممکن ہوسکے یہ کوشش کی جائے کہ اس عہدہ پر کسی مسلمان کو ہی فائز کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے کلیدی دفعات پر روک لگائی یا وقف ترمیمی قانون کے عبوری نفاذ کو روکنے کے لئے دائر کردہ درخواست پر تین دن تک دلائل کی سماعت کی۔ عموماً عدالت کسی عبوری حکم کی درخواست پر اتنا وقت نہیں دیتی لیکن اس کیس میں اہم دفعات پر غور کے لئے تین دن دیئے گئے۔ جب کسی حتمی سماعت کے لئے مقرر ہوگا تب مزید دلائل سنے جائیں گے۔ اس دوران حکومت کی نیت اس کے ارادوں کو فطرت کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ناکامی اور شکست کو زخم سمجھ کر سنبھالے گی اور اپنی ہندوتوا پالیسی کے تحت اقلیتوں پر مزید حملوں کی منصوبہ بندی کرے گی۔ ایک بات ضرور ہے کہ وقف (ترمیمی) قانون کے چہرہ پر تعصب و عناد واضح ہے۔ اگر حکومت دستور کی دفعہ 26 پر دیانتداری سے عمل کرے تو ہر مذہبی فرقہ یا اس کا کوئی بھی حصہ اس بات کا حقدار ہے کہ وہ مذہبی اور فلاحی مقاصد کے لئے ادارے قائم کرے اور انہیں قائم رکھے اور اپنے مذہبی اُمور کو خود منظم کرے اور کوئی بھی شخص جو ملک کی ہمہ جہت یا کثیر النسل اور کثیر مذہبی تشخص کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے بالخصوص ہندو برادری ایسے وقف ترمیمی قانون کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے۔
ہندوستان کی عالمی شبیہ متاثر
سال 2025ء کے ایک تخمینہ میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں مسلم برادری کی آبادی 202 ملین اور عیسائیوں کی آبادی 32 ملین نفوس پر مشتمل ہے جبکہ ہندو ازم قدیم مذہب ہے۔ اس کے برعکس دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عیسائی اور مسلمان سرفہرست ہیں۔ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر اور برداشت و تحمل کا حامل ملک ہے۔ لیکن دنیا ہندوستان کو اس کے قوانین، حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات اور عوام کے سماجی رویہ کی عینک سے دیکھے گی چنانچہ وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ کو متاثر اور کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔ وقف ترمیمی قانون کے بارے میں اپوزیشن نے یہی کہا ہے کہ بی جے پی حکومت موقوفہ جائیدادوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے استعمال کرے گی کیونکہ مسلمانوں اور ان کی موقوفہ جائیدادوں سے متعلق اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سپریم کورٹ نے جہاں مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کی تعداد کو 4 تک محدود کردیا ہے وہیں ریاستی وقف بورڈس میں زیادہ سے زیادہ تین غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے کی اجازت دی ہے۔ بہرحال بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے اس قانون کے ذریعہ بہت سی غیر دستوری ترامیم کی ہیں جس کے منفی اثرات ہندوستان میں موقوفہ جائیدادوں پر مرتب ہوں گے۔