روش کمار
وقف ترمیمی قانون 2025کو لیکر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں میں کافی بے چینی اور برہمی پائی جاتی ہے ۔ مسلمان اس قانون / بل کو مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا ایک اور قدم قرار دے رہے ہیں ۔ اس بل کے خلاف زائد از 72 درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور اس کی سماعت پرزور انداز میں شروع ہوئی ۔ وقف کونسل میں ہندو ارکان ہوسکتے ہیں لیکن کیا آپ ہندو بورڈ میں کسی مسلمان کو رکن بننے دیں گے ۔ سپریم کورٹ نے سیدھا سیدھا سوال پوچھ لیا حکومت سے ، سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت ہورہی تھی جسے قریب 72 ارکان پارلیمان شہریوں انفرادی طور پر مختلف شخصیتوں اور تنظیموں نے دائر کیا ۔ عدالت نے کہا کہ جب قانون پاس ہوتا ہے تو اڈمیشن کی سطح پر عدالت قانون پر روک نہیں لگاتی ، اب اس کی سماعت 17اپریل کو بھی ہوئی لیکن سپریم کورٹ نے پہلے دن وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومت سے قانونی بنیادوں پر جو سوالات حکومت سے پوچھے ہیں ایسا نہیں لگتا کہ حکومت کے پاس کوئی اطمینان بخش جواب تھا جس طرح سے حکومت پارلیمنٹ میں پورے اعتماد کے ساتھ دعویٰ کررہی تھی اور اپنے صحیح ہونے کا موقف رکھ رہی تھی لیکن سپریم کورٹ نے ان ہی سوالات کو لیکر جو اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے تھے حکومت کو خوب گھیرا ۔ مرکزی وقف کونسل میں ہندو ارکان کو لیکر چیف جسٹس سنجیو کھنہ ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن نے سوالات پوچھے ۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ بتایئے کہ مرکزی وقف کونسل میں ہندوؤں کو ارکان بنارہے ہیں ؟ کیا آپ ہندو بورڈ میں مسلمانوں کو ارکان بنانے کی اجازت دینے کیلئے تیار ہیں ؟ جسٹس سنجے کمار نے پوچھ لیا کہ ہمیں مثالیں تو دیجئے کہ کیا تروپتی بورڈ میں بھی غیر ہندو ہیں ۔ ہندوؤں کے خیرات / عطیات (انڈومنٹ) کے مطابق کوئی بھی باہری ( غیر ہندو) بورڈ کا حصہ نہیں ہوسکتا ۔ جسٹس وشوناتھن نے پوچھا کہ ہندو ایکٹ کہتا ہے کہ چیارٹیبل ٹرسٹ کی دیکھ بھال ہندو کرے گا تب سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کہتے ہیں کہ میں کوئی مثال پیش نہیں کررہا ہوں جبکہ عدالت نے صاف صاف پوچھا کہ آپ مثال دیجئے کہ کیا ہندو بورڈ میں مسلمان رکن ہوسکتا ہے ۔ اس سوال کو لیکر کتنی بحت ہوئی ۔ اپوزیشن ارکان نے بار بار پوچھا کہ قانون کا یہ کیسا پیمانہ ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی املاک سے متعلق کونسل میں دو ہندو ارکان ہوں گے لیکن ہندؤں کی مٹھ مندر کے انتظام میں کوئی دوسرے مذہب کا نہیں ہوسکتا کیا یہ برابری کا اصول ہے ۔ جب وہاں نہیں ہوگا تو یہاں کیوں رکھ رہے ہیں ؟ حکمراں بنچ کی جانب سے دلیل دی جاتی رہی کہ وقف کرنے کے بعد املاک ( پراپرٹی) مذہبی نہیں رہ جاتی وقف کا معاملہ پراپرٹی کا ہے مذہبی نہیں ۔ یہ کہتے رہے جبکہ اپوزیشن کہتا رہا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے جس طرح سے قانون ہندوؤں کے مذہبی معاملوں میں ہونا چاہیئے ویسا ہی قانون مسلمانوں کے مذہبی معاملہ میں ہونا چاہیئے تو حکومت کی طرف سے کہا جاتا رہا کہ وقف کا معاملہ مذہبی نہیں ہے ۔ اب حکومت غیر مسلم ارکان کے بارے میں کیا جواب دیتی ہے ۔ درخواست گزاروں کی طرف سے ممتاز قانون داں راجیو دھون ، کپل سبل ، ابھشیک مانو سنگھوی ، چندرے اودے سنگھ اور حذیفہ احمدی دلائل پیش کررہے تھے ۔ کپل سبل نے کہا کہ وقف قانون دستور کی دفعہ 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ ہر دفعہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی اُمور انجام دینے کا حق دیتا ہے ، آزادی دیتا ہے تب حکومت کیسے طئے کرسکتی ہے کہ وقف صرف وہی کرسکتے ہیں جو پچھلے پانچ برسوں سے دین اسلام پر چل رہے ہیں ، ریاست کیسے یہ طئے کرسکتا ہے ۔ ریاست کون ہے یہ طئے کرنے والا کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اس لئے وقف کرنے کے قابل ہوں یا نہیں ۔ اگر میں پیدائشی طور پر مسلمان ہوں تو میں کیوں کروں گا جو میرا پرسنل قانون ہے وہی تو لاگو ہوگا ۔ اس طرح کے دلائل کپبل سبل دے رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس ترمیم کو چیلنج کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ صرف مسلمان ہی وقف بناسکتے ہیں ایک اور ممتاز وکیل چندر اودے سنگھ نے کہا کہ دستور کی دفعہ 26 کو دیکھتے وقت اس میں فرق کرنا چاہیئے کہ مذہب کیا ہے اور مذہبی مقصد کیا ہے یعنی خیرات کیا ہے ؟ ۔ حذیفہ احمدی نے کہا کہ وقف قانون کی دفعہ34 اسلام کی پیروی پر زور دیتی ہے ۔ اس سے ان کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے ۔ راجیو دھون نے کہا کہ اسلام کا جو اپنا بندوبست ہے یہ قانون اس کے خلاف ہے ۔ ابھیشک منو سنگھوی نے دفعہ 32 پر زور دینے کی بات کی اور کہا کہ وقف قانون اس لئے بنایا گیا ہے کہ لوگ سرکاری عہدیدار کے پاس دوڑتے رہے ۔ حکومت کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کہتے رہے کہ قانون پر غور و خوص ہوا ہے ۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے اور کتنے لاکھ لوگوں سے تجاویز طلب کی گئیں سب پر غور و فکر ہوا اس کے بعد قانون لایا گیا جو اس وقت عدالت کے سامنے پیش ہے جس پر سماعت چل رہی ہے لیکن عدالت کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے اس پر تشار مہتا پہلے دور میں اطمینان بخش جواب نہیں دے پائے ۔ ایک بڑا سوال اور تھا Waqf By User کا کئی لوگ اس پہلو کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے ۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کے سوال سے یہ مسئلہ اور صاف ہوتا ہے ، آسان طریقہ سے ہوتا ہے ۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے پوچھا کہ وقف قانون سے Waqf By User کیوں ہٹایا گیا ، مان لیجئے اگر کوئی مسجد 14ویں اور 15صدی سے ہے وقف کی زمین پر تعمیر کی گئی ہے لیکن اس کے پاس کوئی ریکارڈ تو ہے نہیں ایسے میں ابھی تک کیا ہوا تھا Waqf By User کے تحت مان لیا جاتا تھا کہ مسجد ہے 14ویں صدی سے ہے ، 15ویں صدی سے ہے تو وقف کی زمین ہے ۔ اب اگر حکومت دعویٰ کرنے لگ جائے کہ یہ میری زمین ہے تو کیا ہوجائے گا ۔ عدالت کا یہ سوال تھا ۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ اس سے تو سنگین صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے پوچھا کہ ایسی املاک کو آپ کیسے رجسٹرڈ کریں گے ، ان کے پاس کیا دستاویز ہوں گی ؟ ۔Waqf By User کو اگر آپ ختم کرتے ہیں تو مسئلہ پیدا ہوگا ۔ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اس موضوع پر بھی خوب سوال اٹھے ۔ اپوزیشن کے ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جگہ جگہ پر وقف کی زمین کو لیکر وبال ہوجائے گا ۔ طرح طرح کے دعوے ہوں گے ، ایسا مت کیجئے بے چینی اور انتشار پھیل جائے گا لیکن حکومت نے عدالت میں اطمینان بخش جواب نہیں دیا ۔ اس پہلو پر حکومت کیا ٹھوس جواب دیتی ہے اور کیا عدالت اس سے مطمئن ہوتی ہے یا نہیں ۔ Waqf By User کے مسئلہ پر حکومت کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کا کہنا تھا کہ انہیں رجسٹریشن کروانا ہوگا کسی نے انہیں ( مسلمانوں کو ) ایسا کرنے سے نہیں روکا ۔ 1995 کے قانون میں بھی یہ موجود تھا ۔ کپل سبل نے کہا کہ یہ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے وقف سینکڑوں سال پہلے کیا گیا ہے ، کیا 300سال پرانی املاک کی وقف ڈیڈ مانگیںگے ؟ ۔ اس طرح تو رجسٹریشن نہ ہونے پر متولی کو جیل جانا پڑجائے گا ۔ اس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ جو طریقہ رائج ہے یعنی جو چلا آرہا ہے وہی مانا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں صاف لکھا ہے کہ کلکٹر کا فیصلہ عدالت کے دائرہ میں آئے گا ۔ کلکٹر کا فیصلہ عدالت سے بالاتر نہیں ہے اس کا مطلب یہی ہوا ۔ ممتاز وکیل ابھیشک منو سنگھوی نے کہا کہ Waqf By User ہٹانے سے ایک جھٹکہ میں سب کچھ ختم ہوجائے گا یعنی جس زمین پر صدیوں سے مسجد ہے جیسے Waqf By User کے اصول کے تحت پہچان مل جایا کرتی تھی اب اس پرکوئی دعوی کردے گا حکومت بھی دعویٰ کرسکتی ہے پھر اس کے وقف ہونے پر ہی سوال اٹھے گا ۔ استعمال کی بنیاد پر آپ نیا وقف نہیں کرپائیں گے کیونکہ نئے قانون کے مطابق صدیوں سے استعمال ہورہا ہے یہ کافی نہیں ہوگا ، زمین کی دستاویزات پیش کرنی ہوگی ۔کپل سبل اور سنگھوی دونوں نے کہا کہ رام جنم بھومی کے فیصلہ میں اس پہچان کو قبول کیا گیا ہے ، کیا آپ نے فیصلہ کے اُس حصہ کو اب ہٹا دیا ہے یہ بڑا سوال تھا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے اس سے لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کے بعد حکومت کو یہاں بھی مطمئن کروانا آسان نہیں ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہہ دیا کہ کلکٹر کا فیصلہ عدالت کے دائرہ میں آئے گا ۔ اس پر کپل سبل نے وقف قانون کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت کیلئے موقع ہوگا ، یہی اپنے آپ میں غیرقانونی اور غیر دستوری ہے ۔ حکومت یہ اعلان کرسکتی ہے کہ جائیداد ہماری ہے لیکن اس کیلئے وقف کی کوئی حد نہیں لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ تنازعہ کی صورت میں ایک عہدیدار تحقیقات کرے گا جو حکومت کا ہوگا یہ غیر دستوری ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ جو حکومت کا عہدیدار ہوگا وہ ہمیشہ ہی حکومت کے موقف کی تائید و حمایت کرے گا ۔ اگر معاملہ طویل عرصہ تک چل جاتا ہے تو کب تک لوگ انتظار کریں گے ،ٹھیک ہے کہ یہ معاملہ کورٹ میں جائے گا ،کلکٹر کے حکم کو چیلنج کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کلکٹر بنچ بن جائے گا تو وہ حکومت کے موقف کی تائید کرے گا اور یہ معاملہ طویل عرصہ تک کھینچا جاسکتا ہے ۔ سبل نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی وقف کی زمین کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تو اس پر وقف کا حق ختم ہوجائے گا ۔ اس بات پر چیف جسٹس سنجیو کھنہ کا کہنا تھا کہ موقف تو کپل سبل کے حق میں ہی جاتا دکھائی دیتا ہے ۔اگر تاریخی عمارت قرار دیئے جانے سے پہلے ہی وہ وقف قرار دی گئی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ املاک وقف کی ہی رہے گی ۔ آپ کو اس پر چیلنج نہیں کرنا چاہیئے ۔ سپریم کورٹ میں بی جے پی زیر اقتدار کچھ ریاستوں نے قانون کے حق میں درخواستیں دی ۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے ۔