وقف ترمیمی قانون کے خلاف شہر میں زبردست احتجاج ‘ ہزاروں افراد کی شرکت

,

   

متحدہ اور طویل احتجاج کیلئے عوام تیار رہیں۔ مسلمانوں کے بعد عیسائی برادری کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ۔ رکن پارلیمنٹ عمران مسعود ‘ مہیش کمار گوڑ اور مولانا احسن بن عبدالرحمن الحمومی کا خطاب
شدت کی گرمی کے باوجود احتجاج میں عوام کی پرجوش شمولیت۔ برقعہ پوش خواتین بھی شامل ۔ اقلیتی اداروں کے صدور نشین اور کئی سیاسی و مذہبی قائدین نے بھی شرکت کی

حیدرآباد۔ 13اپریل(سیاست نیوز) وقف مرممہ قوانین کے خلاف شہر حیدرآباد میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیاگیا اور مظاہرہ میں شرکت کیلئے دونوں شہروں حیدرآبادو سکندرآباد سے عوام جوق در جوق امڈ آئے جس کے نتیجہ میں بشیر باغ چوراہے سے ٹینک بنڈ جانے والی سڑک کو بند کردیاگیا اور امبیڈکر کے مجسمہ کے قریب شہریان حیدرآباد نے جمع ہوکر فلک شگاف نعرے لگائے اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وقف قوانین سے دستبرداری اختیار کرے یا ملک گیر سطح پر دستور کے تحفظ کیلئے جاری احتجاج میں شدت کیلئے تیار رہے۔ دونوں شہروں کے مختلف علاقوں سے چھوٹی ریالیاں بشیر باغ پر جمع ہوئیں اور ٹینک بنڈ حسین ساگر کے قریب واقع امبیڈکر کے مجسمہ کے پاس جمع ہونے پہنچنے لگیں ۔ اس احتجاجی مظاہرہ میں عام شہریوں نے چلچلاتی دھوپ کے باوجود مرکزی حکومت کے متنازعہ وقف قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے حصہ لیا۔ احتجاج میں رکن پارلیمنٹ کانگریس جناب عمران مسعود‘ صدر تلنگانہ پردیش کانگریس مسٹر بی مہیش کمار گوڑ‘ مولانا احسن بن عبدالرحمن الحمومی کے علاوہ دیگر نے مظاہرین سے خطا ب کرتے ہوئے امت مسلمہ کو پر امن احتجاج کو جاری رکھنے اور حکومت کی جانب سے وقف مرممہ قوانین کے واپس لئے جانے تک طویل مدتی احتجاج کو یقینی بنانے پر زور دیا اور کہا کہ یہ قوانین محض وقف جائیدادوں کو چھین لینے کی کوشش نہیں بلکہ ان قوانین میں ترمیم کے ذریعہ مرکزی حکومت نے آئین میں موجود حقوق کو چھین لینے کا آغاز کیا ہے اور دستور کی روح کو ختم کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ جناب عمران مسعود رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ملک میں اس قانون کے نفاذ کے ذریعہ مودی حکومت نے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام سیکولر طبقات کو مشتعل کیا ہے اور اس فیصلہ سے مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام سڑکوں پر نکل کر اسی طرح احتجاج جاری رکھتے ہیں تو حکومت کو مجبور ہونا پڑے گااور وہ اس قانون کو واپس لے گی۔ جناب عمران مسعود نے کہا کہ مرکزی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور ان کی جائیدادوں کو حاصل کرنے اس قانون کو مسلمانوں پر آزمانے کے بعد دیگر اقلیتوں کو بھی اس طرح کے قوانین کے ذریعہ نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کانگریس اس قانون کے خلاف ہے اور ابتداء سے کانگریس قائد راہول گاندھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں فاشسٹ حکومت آر ایس ایس اور ہندوتوا کے نظریات کے ذریعہ وقف قوانین میں ترمیم کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بعد عیسائیوں اور کلیساؤں کی جائیدادوں کو بھی نشانہ بنائے گی۔ مسٹر بی مہیش کمار گوڑصدر تلنگانہ پردیش کانگریس نے خطاب کے دوران کہا کہ کانگریس وقف ترمیمی قوانین کی سختی سے مخالفت کررہی ہے اور اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت ان قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کی جائیدادوں کو چھین لینے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کا شمالی ہند کی ریاستوں میںآغاز بھی کیا جاچکا ہے لیکن جن ریاستوں میں کانگریس کو اقتدار ہے ان میں اس قانون کو روکنے اقدامات کئے جائیں گے ۔ مہیش کمار گوڑ نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کے دستور سے چھیڑ چھاڑ کا جو منصوبہ تیار کئے ہوئے ہے اسی پر عمل کی یہ ایک کڑی ہے اسی لئے وقف قوانین کے نفاذ پر محض مسلمانوں کو نہیں بلکہ دیگر تمام طبقات کو بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف وقف قانون کا نہیں بلکہ وقف ترمیم کے ذریعہ حکومت نے دستور میں ترمیم کی راہ ہموار کی ہے اور دستور میں دیئے گئے اختیارات کو چھیننے کی کوشش کی ہے۔ مولانا احسن بن عبدالرحمن الحمومی خطیب و امام شاہی مسجد باغ عامہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کسی فرد ‘ جماعت یا تنظیم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ شرعی مسئلہ ہے اس پر اختلافات کے بجائے اتحاد کا ثبوت دینے اور سب کو متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندستان میں مسلمانو ںکے عرصہ حیات کو تنگ کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے اور اس طرح کے قوانین کے ذریعہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی جو کوشش کی جار ہی ہے ان کوششوں کو ناکام بنانے امت مسلمہ کو جدوجہد کرنی چاہئے ۔ مولانا احسن بن عبدالرحمن الحمومی نے پر امن جدوجہدکو آگے لیجانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان احتجاجی مظاہروں ‘ جلسوں اور ریالیوں میں شامل ہونے والوں کو چاہئے کہ وہ دیگر ابنائے وطن کو بھی حقائق سے واقف کروائیں اور انہیں مرکزی حکومت کے مرممہ قانون کے ذریعہ دستور کو نقصان کے متعلق بتائیں۔ آج کے احتجاج کی خصوصیت یہ بھی رہی کہ برقعہ پوش خواتین نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ احتجاجی مظاہرہ میں مشیر حکومت برائے ایس سی ‘ ایس ٹی ‘ بی سی و اقلیتی طبقات جناب محمد علی شبیر‘ صدرنشین تلنگانہ وقف بورڈ جناب سید عظمت اللہ حسینی ‘ صدرنشین تلنگانہ حج کمیٹی مولانا سید غلام افضل خسرو بیابانی ‘ صدرنشین اقلیتی مالیاتی کارپوریشن جناب عبیداللہ کوتوال‘ نائب صدر ٹمریز جناب فہیم قریشی ‘ جناب عثمان بن محمد الہاجری ‘ محترمہ وجیہ ریڈی انچارج خیریت آباد‘ جناب شیخ اکبر ‘ جناب علی بن ابراہیم بن عبداللہ مسقطی و دیگر کانگریس قائدین کے علاوہ ملی و مذہبی شخصیات موجود تھیں۔3