وقف ترمیمی قانون کے خلاف قانونی اور عوامی جدوجہد کا فیصلہ

   

صدرنشین وقف بورڈ کی ارکان سے مشاورت، تلنگانہ میں عمل نہ کرنے چیف منسٹر سے نمائندگی
حیدرآباد 4 اپریل (سیاست نیوز) پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد صدرنشین تلنگانہ وقف بورڈ سید عظمت اللہ حسینی نے وقف بورڈ کے ارکان کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہوئے نئے قانون کی روشنی میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے اقدامات کا جائزہ لیا۔ مولانا اکبر نظام الدین حسینی صابری، ڈاکٹر نثار حسین حیدر آقا، ذاکر حسین جاوید، ایم کے مقیت ایڈوکیٹ، بندگی پاشاہ اور بورڈ کے عہدیداروں نے مرکزی قانون میں شامل نکات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ مرکزی قانون کو مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے قانونی طور پر جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا۔ تلنگانہ وقف بورڈ کی جانب سے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بل میں شامل مختلف نکات کے خلاف تفصیلی نمائندگی کی گئی تھی۔ صدرنشین عظمت اللہ حسینی نے کہاکہ نیا وقف قانون اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے بجائے اُن کی تباہی کا راہ ہموار کرے گا۔ اس کے خلاف نہ صرف قانونی طور پر بلکہ جمہوری انداز میں احتجاج کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ ضرورت پڑنے پر وقف ترمیمی قانون کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع ہوں گے۔ وقف بورڈ کے ارکان نے متنازعہ قانون کے خلاف بورڈ کی جانب سے کسی بھی فیصلہ کی مکمل تائید کا اعلان کیا۔ ارکان کا تاثر تھا کہ مرکزی حکومت نے غریب مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر اوقافی جائیدادوں کو ہرپنے کی سازش تیار کی ہے۔ اوقافی اُمور میں حکومت کی مداخلت کے نتیجہ میں متنازعہ اراضیات کو سرکاری قرار دیتے ہوئے اُنھیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت کے فیصلہ سے مرکزی حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ صدرنشین وقف بورڈ نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں وقف قانون کے خلاف احتجاج منظم کیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہاکہ چیف منسٹر ریونت ریڈی سے نمائندگی کی جائے گی کہ مرکزی قانون پر تلنگانہ میں عمل آوری نہ کی جائے۔ اِس سلسلہ میں حکومت کو اپنے فیصلہ کا اعلان کرنا چاہئے۔ کرناٹک اور ٹاملناڈو کی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں منظورہ قانون اُن کی ریاستوں میں قابل عمل نہیں رہے گا۔1