وقف مافیا کو طاقتور سیاسی قائدین کی سرپرستی

   

وقف جائیدادوں کی تباہی کیلئے ٹی آر ایس حکومت ذمہ دار،ریکارڈ روم مہربند کرنے کا حکومت کو اختیار نہیں،سنٹرل وقف کونسل ارکان کا دورہ وقف بورڈ
حیدرآباد ۔ یکم جولائی (سیاست نیوز) سنٹرل وقف کونسل نے تلنگانہ میں وقف جائیدادوں کی تباہی کیلئے ٹی آر ایس حکومت کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق کے سی آر حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں اور حکومت 37000 ایکر اوقافی اراضی کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کے چار ارکان نے آج تلنگانہ وقف بورڈ کے صدرنشین محمد سلیم سے ملاقات کی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ ، ناجائز قبضوں کے علاوہ عدالتوں میں زیر دوران مقدمات پر بات چیت کی گئی ۔ کونسل کے ارکان رئیس خاں پٹھان ، نوشاد علی ، وسیم ، رحمت علی خاں، حنیف علی کے علاوہ اسسٹنٹ لا آفیسر افضل الحق نے صدرنشین وقف بورڈ کو سنٹرل وقف کونسل کی جانب سے اوقافی جائیدادوں کے ڈیولپمنٹ کیلئے بلا سودی قرض فراہمی کی اسکیم سے واقف کرایا ۔ بعد میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وقف کے ارکان نوشاد علی اور وسیم علی نے ریاستی حکومت کی جانب سے وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو مہربند رکھنے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ سنٹرل وقف ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا ہے اور یہ ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ ریاستی حکومت کو بورڈ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کو مہربند رکھنا ریاستی حکومت کے اختیارات میں شامل نہیں ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ اس مسئلہ کو مرکزی حکومت سے رجوع کرتے ہوئے ضرورت پڑنے پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ نوشاد علی نے کہا کہ حیدرآباد ، مسلمانوں اور اوقافی جائیدادوں کے اعتبار سے جنوبی ہند کا قابل فخر شہر ہے لیکن افسوس کہ حیدرآباد میں اوقافی جائیدادوں پر بڑے پیمانہ پر ناجائز قبضے ہوچکے ہیں۔ وقف کونسل نے عہدیداروں سے جائیدادوں کی تفصیلات کے علاوہ ناجائز قبضوں کی برخواستگی کیلئے ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت اقلیتوں کی بھلائی کے دعوے کرتی ہے لیکن غیر قانونی قبضوں پر خاموش ہے۔ سنٹرل وقف کونسل کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بعض طاقتور سیاسی قائدین وقف مافیا کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی شہر حیدرآباد میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نوشاد علی نے کہا کہ تلنگانہ میں 77,000 ایکر اوقافی اراضی ہے لیکن اراضی سروے کے بعد حکومت نے اسمبلی میں صرف 40,000 ایکر اراضی کا دعویٰ کیا ہے ۔ اس طرح 37,000 ایکر اراضی کو ہڑپنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وقف بورڈ میں ارکان کی مخلوعہ نشستوں کو پر کریں کیونکہ صرف نامزد ارکان کے ساتھ بورڈ کام کر رہا ہے۔ انہوں نے وقف بورڈ کے ریکارڈ روم کی مہربندی فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ضرورت پڑنے پر سنٹرل وقف کونسل مداخلت کرے گی۔ حکومت کا یہ اقدام مخالف مسلم ہے اور اس سے بورڈ کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ اوقافی جائیدادیں اللہ کی امانت ہوتی ہیں جن کا استعمال مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر کیا جاسکتا ہے ۔ نوشاد علی نے کہا کہ تلنگانہ حکومت کی جانب سے مہربندی اور کلکٹر کو انچارج مقرر کرنا غیر قانونی عمل ہے۔ کونسل کے دوسرے رکن وسیم علی نے بتایا کہ ملک کی مختلف ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے اوقافی جائیدادوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں 5 لاکھ 77 ہزار اوقافی جائیدادیں موجود ہیں۔ سنٹرل وقف کونسل وقف بورڈ کی جانب سے ہاسپٹلس، اسکولس اور کالجس کے قیام کی صورت میں دو کروڑ روپئے تک بلا سودی قرض فراہم کرسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر پراجکٹ رپورٹ پیش کی گئی تو سنٹرل وقف کونسل قرض کو منظوری دے گی۔ انہوں نے اوقافی جائیدادوں کے ڈیولپمنٹ کے لئے مرکزی حکومت اور وقف کونسل سے ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلایا۔ صدرنشین محمد سلیم نے ارکان کا خیرمقدم کیا اور تہنیت پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ وقف بورڈ کو غیر قانونی طور پر کی گئی رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور حالیہ عرصہ میں اس طرح کئی جائیدادوں کا تحفظ کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ سنٹرل وقف کونسل کو ریاست کا وقف فنڈ اندرون تین یوم روانہ کردیا جائے گا ۔ محمد سلیم کے مطابق سنٹرل وقف کونسل نے تلنگانہ سے متعلق عدالتوں میں زیر دوران مقدمات میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔