وقف کی 15 ایکر اراضی کو ریاستی وزیر کے قبضہ سے بچانے میں کامیابی

,

   

رجسٹریشن روک دیئے جانے کے خلاف جی کملاکر ہائی کورٹ سے رجوع، حکومت کے احکامات کو وزیر کا چیلنج

حیدرآباد۔ تلنگانہ وقف بورڈ کو کریم نگر میں قیمتی اوقافی اراضی کو ریاستی وزیر جی کملاکر کے قبضہ سے بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کے بعد ریاستی وزیر نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے وقف اراضی کے رجسٹریشن پر روک لگانے سے متعلق احکامات کو چیلنج کیا ہے۔ کریم نگر کے قاضی پور موضع میں سروے نمبرات 122، 126 ، 129 ، 154 اور 171 کے تحت 55 ایکر 24 گنٹے اراضی موجود ہے جو خطابت، انعام لینڈ اور عیدگاہ کے تحت ہے۔ 11 جنوری 1990 کو جاری کردہ وقف گزٹ کے تحت تمام تر ریکارڈ موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس اراضی کے15 ایکر پر ریاستی وزیر جی کملاکر نے اپنا دعویٰ پیش کرتے ہوئے 2012 میں اسوقت کے آر ڈی او کے ذریعہ اپنے حق میں احکامات حاصل کرلئے۔ جوائنٹ کلکٹر نے زمین کے مالک کے طور پر ریاستی وزیر کا نام درج کردیا۔ اسی دوران اوقافی جائیدادوں کے رجسٹریشن کو روکنے کیلئے ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کردہ جی او 15 کے تحت وقف بورڈ نے تمام ضلع کلکٹرس اور رجسٹریشن دفاتر کو اوقافی اراضیات کا ریکارڈ روانہ کیا جس کے بعد کریم نگر کے رجسٹریشن عہدیداروں نے 15 ایکر اراضی کو سیکشن 22A کے تحت رجسٹریشن سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے مذکورہ اراضی ممنوعہ زمرہ میں شامل کردی۔ اس اراضی کا رجسٹریشن نہیں کیا جاسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کے اس فیصلہ کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود ریاستی وزیر برائے بہبودی پسماندہ طبقات جی کملاکر نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے خصوصی دلچسپی سے دھرانی پورٹل متعارف کیا جس کے تحت کئی اراضی اصلاحات کا نفاذ عمل میں آیا۔ متنازعہ اراضی کو امتناعی رجسٹر میں درج کرنے سے متعلق حکومت کے فیصلہ کو غیرقانونی اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے ریاستی وزیر نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ مذکورہ اراضی کو جو سروے نمبر 126 کے تحت ہے ممنوعہ فہرست سے نکال دیا جائے۔ مقدمہ میں چیف سکریٹری سومیش کمار کے علاوہ ضلع کلکٹر کریم نگر ، تلنگانہ وقف بورڈ اور ریوینو عہدیداروں کو فریق بنایا گیا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ تلنگانہ وقف بورڈ نے ابتداء سے ہی اس اراضی پر دستاویزات کے ساتھ اپنی دعویداری پیش کردی جبکہ ریاستی وزیر نے اسے انعام لینڈ قرار دیتے ہوئے ضلع حکام سے اونر شپ رائیٹ سرٹیفکیٹ جاری نے کی خواہش کی۔ ان کی درخواست کوآر ڈی او نے مسترد کردیا تھا جبکہ جوائنٹ کلکٹر نے کملاکر کے حق میں او آر سی جاری کردیا۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے 15 ایکر اراضی کو رہن رکھتے ہوئے 95 لاکھ کا قرض 2014 میں جاری کیا تھا اور 2019 میں قرض کی ادائیگی کے بعد اراضی کو چھڑا لیا گیا۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اراضی کے بارے میں وقف بورڈ کا ملکیت کا موقف مستحکم ہے۔ ریاستی وزیر کا کہنا ہے کہ موضع کی 70 ایکر اراضی 1953 سے چھوٹے اور متوسط کسانوں کی ملکیت میں ہے جبکہ وقف بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق یہ اراضی وقف ہے۔ ہائی کورٹ کے جسٹس پی نوین راؤ کے اجلاس پر سماعت کیلئے یہ معاملہ لسٹ میں شامل کیا گیا۔ اسی دوران صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے کہا کہ وقف اراضی کے تحفظ کیلئے ہائی کورٹ میں موثر پیروی کی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر سینئر کونسلس کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔