ون نیشن ون الیکشن بل پر ووٹنگ، حکومت کو دو تہائی اکثریت نہیں

,

   

لوک سبھا میں ووٹنگ پر 269 ارکان نے حمایت کی، 198کی جانب سے مخالفت
بِل کو جے پی سی سے رجوع کرنے
امیت شاہ کا اعلان

نئی دہلی: مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے ‘آئین (129ویں ترمیم) بل، 2024’ اور ‘یونین ٹیریٹری لاز (ترمیمی) بل، 2024’ لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ اس تجویز کا مقصد لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے لیے بیک وقت انتخابات کرانا ہے۔129 واں آئینی بل برائے ایک قوم، ایک انتخاب بل ون نیشن ون الیکشن بل منگل کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا۔ بل کے لیے سب سے پہلے الیکٹرانک ووٹنگ کرائی گئی۔ بعض ارکان اسمبلی کے اعتراض کے بعد ووٹ میں ترمیم کے لیے پرچی کے ذریعے دوبارہ ووٹنگ کی گئی۔بل پیش کرنے کے حق میں 269 اور مخالفت میں 198 ووٹ ڈالے گئے۔ اس کے بعد مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے اسے ایوان میں پیش کیا۔ امیت شاہ نے ایوان میں کہا کہ جب یہ بل کابینہ میں آیا تو وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیج دیا جائے۔ وزیر قانون ایسی تجویز دے سکتے ہیں۔ایس پی ایم پی دھرمیندر یادو نے کہا کہ ون نیشن، ون الیکشن بل ملک میں آمریت لانے کی بی جے پی کی کوشش ہے۔۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بل ہندوستان کے تنوع کو کم کرے گا اور اس کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کردے گا۔12 دسمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے اس تجویز کو منظوری دی۔ آئینی ترمیمی بل میں لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کرنے کی دفعات قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔12:10 بجے مرکزی وزیر ارجن رام میگھوال نے لوک سبھا میں ون نیشن، ون الیکشن بل پیش کیا۔ حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ نے بل کی مخالفت کی جس کے بعد اسپیکر اوم برلا نے بل کو متعارف کرانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ کرائی۔ اس میں 369 ارکان نے اپنا ووٹ ڈالا۔ حق میں 220 اور مخالفت میں 149 ووٹ ڈالے گئے۔ جس کے بعد اپوزیشن ارکان نے اعتراض کیا۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ اگر انہیں اعتراض ہے تو پرچی دیں۔ اس پر اسپیکر نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر کسی رکن کو ایسا لگتا ہے تو وہ پرچی کے ذریعے اپنے ووٹ میں ترمیم بھی کر سکتا ہے۔ اس کے بعد مزید ارکان پارلیمنٹ نے ووٹ ڈالے۔ حق میں 269 اور مخالفت میں 198 ووٹ ڈالے گئے۔ کسی آئینی تبدیلی کیلئے دو تہائی اکثریت (362) درکار ہوتی ہے۔ اس کے بعد وزیر قانون نے 1 بجکر 15 منٹ پر دوبارہ بل پیش کیا۔ 32 جماعتوں نے بل کی حمایت کی، 15 نے مخالفت کی۔32 سیاسی جماعتوں نے ون نیشن، ون الیکشن کی حمایت کی ہے۔ ان میں جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر سی پی، کے چندر شیکھر راؤ کی (بی آر ایس) اور پلانی سوامی کی اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں شامل ہیں۔ یہ تینوں پارٹیاں کسی اتحاد (این ڈی اے اور انڈیا) کا حصہ نہیں ہیں۔ساتھ ہی 15 جماعتوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ کانگریس کے علاوہ شیو سینا (یو بی ٹی)، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں اس میں شامل ہیں۔کانگریس لیڈر مانیکم ٹیگور نے کہا کہ حکومت کو پارلیمنٹ میں بل کے لیے دو تہائی اکثریت (307) کی ضرورت تھی، لیکن اسے صرف 263 ووٹ ملے۔ اس کے خلاف 198 ووٹ ڈالے گئے۔ یہ بل مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکا۔اگرچہ سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے قومی اور ریاستی انتخابات کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات مرحلہ وار انداز میں کرانے کی سفارش کی تھی، لیکن کابینہ نے اس مرحلے پر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے گریز کیا ہے۔اپوزیشن نے ون نیشن ون الیکشن بل واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ون نیشن ون الیکشن بل کو پیش کرنے کے بعد ، کانگریس نے اسے آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔اپوزیشن کی طرف سے شدید مخالفت کے پیش نظر وزیرداخلہ امیت شاہ نے اعلان کیاکہ اِس بِل کو مزید غور و خوض کیلئے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) سے رجوع کیا جائے گا۔