ون نیشن ون الیکشن دور جدید کے تغلق کی ذہنی اختراع

   

یوگیندر یادو
دنیا میں ایسے کئی ہشیاری کے ساتھ دیئے گئے جواب ہیں جو کسی حقیقی سوال کی تلاش میں ہیں جب و نیشن ون الیکشن ONOE کی بات شروع ہوئی تو یہ ایک حقیقی مسئلہ کی تلاش میں ایک عظیم پالیسی حل کی طرح نظر آیا۔ یہ تو بیماری کی تلاش میں ایک حل یا بیماری سے بھی بدتر ایک دوا ہے۔ یہ نوٹ بندی کی اگلی کڑی کی طرح لگ رہا تھا جو جدید دور کے تغلق کی ذہنی اختراع تھی جو بنا کسی ویژن یا بلیو پرنٹ کے کچھ بڑا کرنے کا خواہاں تھا۔ ماضی کے انتظامیہ نے جب جوش و خروش سے اس اسکیم کو آگے بڑھایا ہے اور ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے پر اعلی سطحی کمیٹی HLC کی رپورٹ کے مطالعہ سے اب مجھے یقین ہوگیا کہ ون نیشن ون الیکشن صرف ایک من گھڑت لیکن نقصاندہ تصور نہیں ہے یہ ایک بڑی سیاسی اسکیم میں فٹ بیٹھتا ہے جو طویل عرصہ سے کام کررہی ہے۔ جمہوریت کو عوام سے بچانے کی متوسط طبقہ کے تصور اور اس کے مقبول عام مواد سے جمہوریت کو اخذ کرنے نوکر شاہی کی جستجو میں ابھرنے والا یہ ڈیزائن اب حکمرانوں کی جانب سے جمہوریت کو اپنے کنٹرول میں کرنے اور اسے کمزور کرنے کی خواہش کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ 281 صفحات پر مشتمل رپورٹ ایک ایسی دستاویز ہے جسے آرڈر کے مطابق تیار کیا گیا ہے جس کے نتائج اس کے حوالے جات میں لکھے گئے تھے جس طرح ریزرو بینک آف انڈیا کو نوٹ بندی کی خوبیاں ایجاد کرنے کے لیے کہا گیا تھا اسی طرح HLC کو ONOE نافذ کرنے کے دلائل تیار کرنے یا ان کی تلاش کے لیے ذمہ داری دی گئی۔ ویسے بھی HLC میں ONOE کی تائید و حمایت کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ ان لوگوں نے اسے نافذ کرنے کے لیے درکار قانونی و آئنی قواعد و ضوابط اور انتظامی لاجسٹکس کی تفصیلات کو بڑی فرمانبرداری کے ساتھ پر کیا۔ ONOE سیاسی کارکنوں کو مسادی مواقع پیش کرے گا (P:155) کیوں کہ ایک ہی لیڈر ایم ایل اے اور ایم پی کے لیے مقابلہ نہیں کرے گا اور نفرت انگیز تقاریر نہیں کرے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی دلیل دی گئی کہ ہدنوستان میں جو طرز حکمرانی ہے وہ صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت کا مجموعہ ہے۔ رپورٹ میں جو دلیل دی گئی وہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ایک ساتھ انعقاد سے شہری ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے احساس کو فروغ دینا ہے ہمیں اس دلیل پر غور کرنا ہوگا کیوں کہ ملک بھر میں شہری جمہوریت کے تہوار (انتخابات) میں اجتماعی طور پر شرکت کرتے ہیں یا حصہ لیتے ہیں اور اس طرح انتخابات شہریت اور اخوت کے بندھن کو مضبوط کرتے ہیں۔ ون نیشن ون الیکشن کی جس طرح حکومت اور اس کے حامی تائید و حمایت کررہے ہیں اس کی خوبیاں بیان کررہے ہیں وہ ہمیں اسکول کے ان طلبہ کی یاد دلاتی ہیں جو سائنسی پراجکٹ کے لیے اپنی تازہ ترین ایجاد کے بے شمار فوائد کے بارے میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ بتاتے ہیں۔ ون نیشن ون الیکشن کے حق میں جو بنیادی دلیل دی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ بہ یک وقت انتخابات سے حکمرانی کے معیار میں تیزی آئے گی۔ حکومت کا رخ تبدیل کرنے میں کمی ریاستی اخراجات میں بچت اور پالیسی منجمد ہونے کی وجہ سے ٹائم ونڈو میں کمی، انتخابی ضابطہ اخلاق کی کاروائی یہ درست دلائل ہیں جس کے ویژن کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے (انتخابات کیلیے عام طور پر 5 برسوں میں تین)۔ آپ کو بتادیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس 6 ماہ کے اندر ہونے والے تمام اسمبلی انتخابات کو ایک دوسرے سے ملانے کا اختیار ہے (جسے اس نے مہاراشٹرا، جھارکھنڈ اور دہلی کے معاملہ میں استعمال نہ کرنے کو پسند کیا) اس میں 12 ماہ تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن جو لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ایک ہی وقت انعقاد کے لیے تیار ہے اس سے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتخابات کی مدت کو 15 دن تک کم کرے اور تین مرحلوں سے زیادہ نہ ہو۔ باالفاظ دیگر اگر کسی بیماری کا علاج عام گولیوں Tablets سے ہوسکتا ہے تو پھر سرجری کے لیے کیوں جائیں؟ یہاں ایک اور بات اہم ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص انڈیا بلاک کا دعوی ہے کہ ONOE ناقابل عمل ہے۔ اس سے دستوری و جمہوری ڈھانچے کو سنگین نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ملک کی کم از کم 15 مسلمہ سیاسی جماعتوں نے جن کا زیادہ تر تعلق انڈیا بلاک سے ہے ONOE کی مخالفت کی ہے۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ انتخابی کیلنڈر میں کوئی سادہ انتظامی تبدیلی نہیں ہے۔ اپوزیشن کے خیال میں یہ ہمارے پارلیمانی نظام حکومت میں شامل مقننہ کے لیے ایگزیکٹیو کے جوابدہی کے بنیادی اصول کو خراب کردے گا۔ HLC اپنی رپورٹ میں اس مسئلہ کا حل تجویز کرتی ہے کہ ایک اور مسئلہ پیدا کرکے باقی مدت کے لیے انتخابات کرائے جائیں یہ صرف ایک سال کے لیے ہوں حالانکہ ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ بلدی اور پنچایتی اداروں کی مدت کو یا میعاد کو لوک سبھا کے ساتھ جوڑ نے کی تجویز وفاقی حکومت کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ اس لحاظ سے ONOE ہمارے آئن کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے۔ ONOE کا انتظامی، قانونی اور آئنی مسائل سے زیادہ سب سے گہرا مسئلہ اس میں موجود سیاسی ڈیزائن ہے۔ واضح طور پر یہ یعنی لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات قومی بالخصوص حکمراں پارٹی کے حق میں ہے اور علاقائی جماعتوں کے حق میں نہیں۔ ان حالات میں کیا دوبارہ انتخابات نہیں کروانے پڑیں گے؟ ضرور کروانے ہوں گے تو پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ONOE کا فائدہ کیا ہے (اکثر سیاسی مبصرین کے خیال میں ONOE سے متعلق دور جدید کے تغلق کی نیت مشکوک ہے) بہرحال اس ضمن میں عوام اور عوامی نمائندوں کو بلا لحاظ سیاسی وابستگی بڑی سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ONOE ہمارے قومی مفاد میں ہے یا نہیں یا پھر صرف ایک پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے؟