راہول گاندھی کی 16 روزہ یاترا میں انڈیا اتحاد کے قائدین نے حصہ لیا، عوام کا زبردست جوش و خروش
پٹنہ۔31؍اگست ( ایجنسیز ) کانگریس قائد راہول گاندھی کی قیادت میں جاری ’ووٹر ادھیکار یاترا ‘ آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ 16 روزہ اس اہم سیاسی مہم کا باضابطہ اختتام کل پیر یکم ستمبرکو ہوگا جب پٹنہ میں ایک مارچ کے ذریعہ یاترا مکمل کی جائے گی۔ یہ مارچ گاندھی میدان میں واقع مہاتما گاندھی کے مجسمے سے شروع ہوگا اور ہائی کورٹ کے قریب بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمہ تک پہنچے گا۔یہ یاترا 17 اگست کو سہسرام سے شروع ہوئی تھی اور اب تک بہار کے 25 اضلاع اور 110 سے زیادہ اسمبلی حلقوں سے گزرتے ہوئے تقریباً 1300 کلومیٹر کا سفر طے کر چکی ہے۔ عوامی حمایت کے لحاظ سے یہ مہم مہاگٹھ بندھن کیلئے ایک بڑی کامیابی سمجھی جا رہی ہے جس میں انڈیا اتحاد کے کئی اہم قائدین نے حصہ لیا۔ مختلف مقامات پر عوام نے اس کا روایتی اور جوشیلے انداز میں استقبال کیا۔ گھوڑوں، بگھیوں اور بینڈ باجوں کے ساتھ بھی جلوس کو خوش آمدید کہا گیا۔یاترا کے دوران راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن قائدین نے بی جے پی، وزیر اعظم نریندر مودی اور الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ جگہ جگہ عوامی جلسوں میں ’ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ کے نعرے لگائے گئے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ یہ تحریک صرف بہار تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک میں پھیلے گی اور اب بی جے پی کو ووٹوں اور انتخابات کی چوری نہیں کرنے دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جدوجہد صرف ووٹوں کے تحفظ کی نہیں بلکہ عوامی حقوق کی بحالی کی ہے۔ 14ویں دن سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے شرکت کر کے کہا کہ بہار کے عوام کو چاہیے کہ وہ بی جے پی کو اسی طرح شکست دیں جیسے اودھ (اتر پردیش) میں عوام نے دی۔ اس سے پہلے ٹاملناڈو کے چیف منسٹرایم کے اسٹالن، کانگریس کی ریاستی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سینئر رہنما بھی شریک ہو چکے ہیں۔کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے دعویٰ کیا کہ بہار کے عوام نے اس یاترا کو تاریخی حمایت دی ہے اور یہ اسمبلی انتخابات میں مہاگٹھ بندھن کی کامیابی کی بنیاد ثابت ہوگی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ مہم آنے والے اسمبلی انتخابات کیلئے اپوزیشن اتحاد کا سب سے بڑا طاقتور پیغام ہے، جس نے انتخابی ماحول کو گرما دیا ہے۔کل کے مارچ کو یاترا کا فیصلہ کن لمحہ سمجھا جا رہا ہے جہاں راہول گاندھی اور اتحادی رہنما اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ مارچ نہ صرف اس جدوجہد کے اختتام کی علامت ہوگا بلکہ انتخابی معرکے سے قبل اپوزیشن کے اتحاد اور عزم کا بھی اظہار کرے گا۔