روش کمار
آج کل سارے ملک میں اپوزیشن جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ رائے دہی کروانے کی مخالفت کر رہی ہیں، ان کا الزام ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹرا میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں ہیرا پھیری کرتے ہوئے اپوزیشن کے ووٹ چرائے گئے ہیں۔ اپوزیشن ، عوام اور جمہوریت کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ۔ ان حالات میں اپوزیشن اور خود عوام کا بھی مطالبہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بجائے بیالٹ پیپر کے ذریعہ رائے دہی کرائی جائے ۔ ایک طرف اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر سوالیہ نشان اٹھارہی ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن آف انڈیا اور بی جے پی پُر زور بلکہ پر شور انداز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مدافعت کرنے لگے ہیں ۔ وہ یہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں کہ ای وی ایم میں گڑبڑ کی جاسکتی ہے ۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ای وی ایم میں گڑبڑ نہیں کی جا سکتی ہے تو پھر حکومت بیالٹ پیپر کے ذریعہ رائے دہی کروانے سے کیوں گھبرا رہی ہے ۔ اسے آخر کس بات کا ڈر ہے؟ بہرحال ہم مہاراشٹرا لئے چلتے ہیں جہاں کے ایک گاؤں میں بیالٹ پیپر کے ذ ریعہ رائے دہی ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ مہاراشٹرا کے شولاپور کے ایک گا ؤں مارکڈ واڑی میں اعلان کیا کہ 3 ڈسمبر کو بیالٹ پیپر کے ذریعہ گا ؤں میں رائے دہی ہوگی۔ 1982 میں کیرالا میں ضمنی انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال شروع ہوا اور اس کے بعد 2004 سے اس کا مسلسل استعمال ہونے لگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں لوک سبھا کے 9 انتخابات بیالٹ پیپر کے ذریعہ ہی ہوئے ہیں ۔ مارکڈ وا ڑی گاؤں کے لوگوں نے بیالٹ پیپر سے رائے دہی کی تیاری پوری کرلی تھی۔ بیالٹ باکس بھی بنالیا تھا ۔ بیالٹ پیپر بھی تیار تھے ۔ بڑی تعداد میں لوگ یہاں آکر بیٹھ بھی گئے ۔ تحصیلدار نے ووٹنگ کی اجازت نہیں دی تھی، پھر بھی گاؤں والوں نے اپنی طرف سے تیاری کرلی۔ ووٹنگ کئے جانے کی اپیل کیلئے پوسٹرس بھی لگائے گئے ۔ گاؤں والوں سے کہا گیا کہ ووٹنگ میں حصہ لیں ، انہیں شبہ ہے کہ ان کے گاؤں کے 1900 ووٹ میں سے بی جے پی کے امیدوار کو 1000 سے زائد ووٹ کیسے مل گئے ؟ رائے دہی کو روکنے کیلئے یہاں بڑی تعداد میں پولیس والوں کی تعیناتی کردی گئی تھی۔ گاؤں میں 5 ڈسمبر تک کرفیو نافذ کردیا گیا تھا ۔ ٹھیک ہے قانونی رکاوٹ نہیں تھی لیکن یہ Mock چناؤ ہوسکتا تھا۔ الیکشن کمیشن بھی ٹریننگ کیلئے Mock ڈریل کرواتا ہے، ایک چھوٹے سے گاؤں کا Mock ووٹ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے الیکشن کمیشن کیلئے اتنا بڑا خطرہ بن گیا ۔ آخر کتنی ہی تنظیمیں اور ادارے ہیں جو انتخابات کرواتی ہیں اور اپنی سطح پر رائے دہی کروالیتی ہیں۔ انتظامیہ کے انکار کے بعد مارکڈ واڑی گاؤں میں بیالٹ پیپر سے رائے دہی تو نہیں ہوئی لیکن شولا پور ضلع کے مال شیراز حلقہ اسمبلی میں یہ گا ؤں شامل ہے، یہاں سے بی جے پی کا امیدوار 13000 سے ووٹوں سے ہار گیا تھا۔ جیتنے کے بعد این سی پی شرد پوار کے رکن اسمبلی اتم راؤ جانکر نے بیالٹ پیپر سے رائے دہی کی تائید و حمایت کی ۔ ان کا ماننا ہے کہ انہیں اس گاؤں کے نتیجہ پر بھروسہ نہیں ہورہا ہے۔ اس گاؤں میں انہیں اکثریت نہیں ملی جبکہ پچھلے کئی انتخابات میں انہیں یہاں سے اکثریت ملتی رہی ہے ۔ این سی پی شرد پوار اتم راؤ جانکر دھنکر سماج سے آتے ہیں اور بی جے پی کا امیدوار دوسری ذات کا بتایا جارہا ہے ، اس گاؤں میں دھنکر سماج کے ووٹروں کی تعداد زیادہ مانی جاتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس ذات کے امیدوار کو ہی ووٹ مل جائے ۔ دوسری پارٹی کے یا ذات کے امیدوار کو نہ ملے ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ گزشتہ انتخابات میں جتنے ووٹ ملے ، اتنے ہی ووٹ اگلے انتخابات میں بھی مل جائیں۔ ان باتوں کو بھی ذہن میں رکھتے چلئے ، اس کے بعد بھی گاؤں کے لوگوں کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ بی جے پی کے امیدوار کو زیادہ ووٹ مل گئے ہیں، اس لئے گاؤں کے لوگ بیالٹ پیپر سے پھر سے رائے دہی کرنا چاہتے تھے۔ گاؤں کے کئی لوگوں نے بیالٹ پیپرس سے رائے دہی کی مخالفت بھی کی ہے۔ مارکڈ واڑی گاؤں میں بیالٹ پیپر سے چناؤ کی تیاری کی وجہ نے مہاراشٹرا بھر میں نتائج کو لے کر پائے جانے والے شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی ہے ۔ شولا پور ضلع کا یہ واقعہ ان تمام سوالوں کا نمائندہ بن گیا ہے جن کے جواب لوگوں کو ٹھوس شکل میں نہیں مل رہے ہیں۔ مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کے نتائج کو لے کر صرف اپوزیشن جماعتوں نے شکوک و شبہات ظاہر نہیں کئے، سوال نہیں کئے ہیں، عام لوگوں میں بھی نتائج کو لے کر طرح طرح کے سوال ہیں اور ان ہی عمل سے جڑے لوگوں میں بھی یہ سوال گردش کر رہے ہیں ۔ انتخابی اعداد و شمار کو سمجھنے والوں نے بھی نتائج کو سمجھ سے بالاتر اور مشکوک مانا ہے ۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیسے کیا ہوا۔ مارکڈ وا ڑی گاؤں کے لوگوں نے بیالٹ پیپر سے اپنے نتائج کو جانچنے کا اعلان کر کے ایک راستہ دکھایا ہے کہ اگر انہیں سوالوں کے جواب نہیں ملیں گے تو ایک راستہ یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ نتائج کو لے کر پہلی بار شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ کئی انتخابات میں کچھ سوالات تو اٹھے ہیں لیکن مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد یقیناً ان شبہات اور سوالات نے سنگین رخ اختیار کرلیا ہے ۔ شولا پور کے مارکڈ وا ڑی کے لوگوں نے ان سوالات کو پھر سے سطح پر لادیا ہے ، جنہیں شکست کی صورت میں رونا دھونا مان کر خارج کردیا جارہا تھا ، مارکٹ واڑی گا ؤں سے بہت پہلے اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے سپریم کورٹ میںدرخواست داخل کی تھی کہ بیالٹ پیپر کے ذریعہ ووٹنگ کرائی جائے اور 100 فیصد وی وی پیاٹ کی گنتی کی جائے لیکن اسی سال اپریل میں جسٹس سنجے کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے موجودہ پروٹوکول کا حوالہ دیتے ہوئے اس درخواست کو خارج کردیا ۔ کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے نے بھی یوم دستور پر بھی دہلی میں بیالٹ پیپر سے رائے دہی کروانے کا مطالبہ کردیا ۔ انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ ہم کو ای وی ایم اور پی وی ایم کچھ نہیں چاہئے ہمیں صرف بیالٹ پیپر کے ذریعہ ووٹ چاہئے ۔ یہ بھی ذ ہن میں رکھنا چاہئے کہ مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کو لے کر شبہات صرف ای وی ایم کو لے کر نہیں ہیں ، کئی طرح کے شکوک و شبہات ہے لیکن تمام شبہات کو مشین کے نام پر خارج کردیا جارہا ہے ۔ کیا آپ بھول گئے کہ اسی سال فروری میں الیکٹورل بانڈ کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی مانا تھا، یہ اپنے آپ میں ایک فراڈ تھا جو کئی انتخابات سے چلا آرہا تھا ۔ الیکٹورل بانڈ ایک نیا طریقہ تھا چناؤ میں فراڈ کرنے کا جو 2014 کے بعد مودی حکومت لے کر آئی۔ باقاعدہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ غیر دستوری ہے اور یہ جمہوریت پر حملہ کرتی ہے ۔ آزادانہ و شفاف انتخابات کے عمل میں مداخلت کرتا ہے کیونکہ ریاستوں اور مرکز میں حکمراں جماعتوں کو جو فنڈ ملتا ہے ، اس میں کافی فرق ہوتا ہے ۔ اس سے الگ الگ جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے درمیان Level Playing فیلڈ پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں الیکٹورل بانڈ کو چیلنج شکست سے مایوسی کے نتیجہ میں نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس سبب کیا گیا تھا کہ انتخابی عمل میں ایک فراڈ ہورہا ہے ۔ الیکٹورل بانڈ ایک فراڈ تھا جس سے انتخابی عمل میں دو جماعتوں کے درمیان توازن ختم ہورہا تھا ، اس فراڈ کے رہتے کئی انتخابات ہوگئے، اس کا فائدہ کس کو ملا ، آپ سب جانتے ہیں۔ سب سے زیادہ چندہ بی جے پی کو ملا اور وہ بھی کئی ہزار کروڑ روپئے ۔ اس اسکیم کی وجہ سے انتخابات میں توازن ٹوٹ گیا ۔ خود سپریم کورٹ نے مانا ہے کہ کیا بانڈ کو چیلنج شکست کی مایوسی میں کیا گیا تھا ۔ بالکل نہیں ! کیونکہ اس کے خلاف درخواست دائر کرنے والی پارٹی سی پی ایم کو یقین تھا کہ یہ ایک فراڈ ہے۔ اس لئے باقی جماعتوں کی طرح مجبوری میں بھی الیکٹورل کی بانڈ سے چندہ نہیں لیا ، بعد میں سپریم کورٹ نے بھی دستوری دھوکہ دہی کو سامنے سے پکڑا تب گودی میڈیا نے آپ یاد کیجئے کہ کتنے سوال پوچھے۔ اس نے الیکٹورل بانڈ کے فراڈ کو لے کر کتنے سوال کئے ؟ سب خاموش ہوگئے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب بانڈ اور فنڈ کے ذریعہ انتخابی عمل میں فراڈ کیا جاسکتا ہے تو آپ باقی سوالوں اور شکوک و شبہات کو خارج کیسے کرسکتے ہیں ۔ کئی لوگ نتائج کو ہی خارج کر رہے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو نتائج کو خارج نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے کچھ سوالات کے جواب جان لینا چاہتے ہیں ۔ اس لئے آپ تمام سوالوں کو شکست کی مایوسی کا نام دے کر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کا مظاہرہ بہتر رہا تھا اس کے بعد بھی لوک سبھا میں اکھلیش یادو سے لیکر مہوہ موئترا نے اپنے پہلے ہی خطاب میں الیکشن کمیشن کے کردار پر سوالیہ نشان اٹھائے تھے ، وہ یہ سوال ہار کی مایوسی میں نہیں ا ٹھارہے تھے بلکہ لوک سبھا کا یہ ریکارڈ بتا رہا ہے کہ اپوزیشن تب بھی سوال اٹھارہا تھا، جب اس کا مظاہرہ بہتر ہوا تھا ۔ اکھلیش یادو نے لوک سبھا میں بڑی سنجیدگی سے کہا ’’ اسپیکر صاحب ای وی ایم پر مجھے کل بھی بھروسہ نہیں تھا ، آج بھی بھروسہ نہیں ، میں 80 کے 80 سیٹیں جیت جاؤں تب بھی بھروسہ نہیں رہے گا ۔ میں نے انتخابی مہم کے دوران بھی کہا تھا کہ ای وی ایم سے جیت حاصل کر کے ای وی ایم ہٹانے کا کام کریں گے ۔ ای وی ایم کا مسئلہ ختم نہیں ہوا جب تک ای وی ایم نہیں ہٹے گا ، سماج وادی اسے ہٹانے کیلئے کھڑے رہیں گے ۔ اچھی بات ہے کہ مہذب سماج کی تنظیمیں اپوزیشن اور عوام الیکشن کمیشن اور حکومت کے کردار کو لے کر شکوک و شبہات کا اظہار کرتی ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں (انتخابی عمل کو لے کر فکر پائی جاتی ہے، مایوسی نہیں۔ کیا دنیا کی کوئی جمہوریت نے اس زمین پر انتخابات میں دھاندلیاں نہیں دیکھی ہیں یا ہندوستان کے انتخابات میں دھاندلی کبھی نہیں ہوئی ؟ ہم اس کی نوٹنکی کیوں کر رہے ہیں؟ جیسے شکوک و شبہات ظاہر کرنا دوسرے سیارہ کا واقعہ ہو۔ بیالٹ پیپر کا مطالبہ تو ایلون مسک بھی کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ای وی ایم پر بھروسہ نہیں جبکہ وہ دن رات مشین بنانے کا کام کرتے ہیں ۔ خود انہوں نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ہیک کرنے کا خطرہ بہت بڑا ہے ۔ بھلے ہی کم مشینوں کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے ۔ ٹرمپ کے ایک خطرہ بہتر بڑا ہے ، بھلے ہی کم مشینوں کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے ۔ ٹرمپ کے ایک اور حامی رابرٹ کینڈی جو نیئر وہ بھی ای وی ایم پر شکوک و شبہات کا اظہار کتے ہیں کیونکہ امریکہ میں بیالٹ پیپر کے ذریعہ رائے دہی ہوتی ہے ؟ کیا امریکہ اس طرح کی مشین نہیں بناسکتا تھا ؟ آپ مشین کا نام لے لیجئے یو ٹیوب کے لنک کے نیچے آپ کو ہندوستان کا الیکشن کمیشن سے ایک جواب پوسٹ کردیا جاتا ہے۔ اتنی نگرانی کیوں ؟ کیوں یونیوبرس کے اس ویڈیو کا مانیٹائزیشن ختم کردیا جاتا ہے جو مشین کی بات کرتا ہے ۔ ملک میں اپوزیشن نے اور عوام نے کئی انتخابی نتائج کو قبول بھی کیا ہے ۔ یہ بھی ٹھیک نہیں کہ ہر انتخابات کے بعد شکوک و شبہات ظاہر کئے جائیں۔ سوال ہے کہ مہاراشٹرا انتخابات میں ایسا کیا ہوگیا کہ شبہ کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ، اس سے جڑے کچھ سوال تھے۔ دوسری ریاستوں کے وقت سے اٹھ رہے تھے ، جنہیں اٹھانے کے بعد لوگوں نے خود ہی چھوڑ دیا لیکن مہاراشٹرا نتائج کے بعد پھر سے ان سوالوں کو اٹھایا جانے لگا ہے۔