ووٹ چوری پر الٹی بات کرنے والوں پر کانگریس کی تنقید

   

راہول گاندھی کو نشانہ بنانے والوں کا بی جے پی روزگار ایکسچینج سے تعلق

نئی دہلی ۔ 19 نومبر (ایجنسیز) راہول گاندھی کے ذریعہ لگاتار الیکشن کمیشن کو نشانہ بنانے پر 272 ریٹائرڈ ججوں اور بیوروکریٹس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے ایک کھلا خط لکھ کر راہول گاندھی کی کوششوں کو الیکشن کمیشن کی شبیہ خراب کرنے والا ٹھہرایا ہے۔ لیکن اب کانگریس نے بھی ان 272 لوگوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں نے الیکشن کمیشن کی دھاندلی کا پردہ فاش کرنے پر راہول جی پر تنقید کی ہے۔ 140 کروڑ کے ملک میں یہ 272 لوگ کتنے معروف ہیں یہ تو نہیں پتہ، لیکن ’بی جے پی روزگار ایکسچینج‘ میں یہ درخواست کنندہ ضرور ہیں۔ ورنہ ’ووٹ چوری‘ کے اتنے سارے ثبوت دیکھ کر بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر الٹی بات کرنے والوں میں کوئی سابق الیکشن کمشنر کیوں نہیں ہے؟پولیس والے نظامِ قانون پر بات نہیں کررہے ہیں، سابق ہائی کمشنر فیلڈ خارجہ پالیسی پر نہیں بول رہے ہیں، آر اے ڈبلیو والے پہلگام سے لے کر دہلی بم دھماکہ میں انٹلیجنس کی ناکامی پر نہیں بول رہے ہیں، لیکن سب کے سب الیکشن کمیشن کی پیروی کر رہے ہیں۔ کانگریس ترجمان نے راہول گاندھی اور ’ووٹ چوری‘ کے خلاف جاری مہم کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی مذمت میں کہا کہ ان لوگوں میں سے کتنوں کے اندر ہمت ہے کہ فرضی پتہ، فرضی آئی ڈی، فرضی تصویر، ایک چھوٹے سے گھر میں سینکڑوں لوگوں کے رجسٹر ہونے پر سوال اٹھائیں؟ ان میں سے کتنوں کے پاس یہ پوچھنے کی ہمت ہیکہ جب بہار الیکشن کے درمیان میں حکومت پیسے تقسیم کر رہی تھی تب الیکشن کمیشن خاموش تماشائی کیوں بنا رہا؟ ان میں سے کتنوں کے پاس ہمت ہیکہ بی جے پی قائدین کے الگ الگ مقامات پر ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنے پر سوال اٹھائیں؟ اس طرح کانگریس نے راہول کے خلاف کھلا خط لکھنے والے 272 ریٹائرڈ ججوں اور بیوروکریٹس کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سپریا کہتی ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ 2014 کے پہلے ’ذمہ دار معروف‘ شہری منتخب حکومت سے سوال پوچھتے تھے، آخر جس کے پاس اقتدار، وسائل، ادارے ہیں، سوال بھی تو انہیں سے ہوگا۔ لیکن اب سوالوں کے گھیرے میں وہ شخص ہے، جو اس ملک کی جمہوریت کی دھجیاں اڑنے کے خلاف مضبوطی سے لڑ رہا ہے۔‘‘ کانگریس لیڈر میڈیا کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے سے پرہیز نہیں کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میڈیا کا تو کیا ہی کہا، جو نریندر مودی کے دن کو رات کہنے پر بھی حامی بھرنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘