ووٹ چوری ۔ یو پی میں تو حد ہوگئی

   

سنجے سنگھ ایم پی
سارے ملک میں ووٹ چور گدی چھوڑ کے نعرے گونج رہے ہیں جس پر حکومت کے ساتھ الیکشن کمیشن بھی برہم ہے لیکن اپوزیشن نے ووٹ چوری کے جو ا لزامات عائد کئے ہیں ، اس میں سچائی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں خاص طور پر اترپردیش کی فہرست رائے دہندگان میں بڑے پیمانہ پر بے ضابطگیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے مہوبہ ضلع میں ایک ہی مکان میں دس بارہ نہیں بلکہ 4271 رائے دہندے پائے گئے اور یہ کام اس ریاست میں بڑے پیمانہ پر ووٹ چوری کی گئی اور وہ بھی بی جے پی اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے شروع کی گئی ۔ ویسے بھی مہوبہ میں دو گھر ایسے بھی ہیں جس میں بالترتیب 243 اور 185 ووٹر پائے گئے، اس سے کہیں زیادہ چونکا دینے والا معاملہ وہ گھر ہے جس میں 4271 رائے دہندوں کے نام ہیں ۔ اگر ایک گھر میں 4271 رائے دہندے ہیں تو پھر اس میں 12000 افراد ہونے چاہئے ۔ اگر دیکھا جائے تو اس گاؤں کے سربراہ کا الیکشن ہوتا ہے تو اس گھر کا صدر/ صدر خاندان بآسانی جیت جائے گا ۔ اسے کسی اور کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جس موضع میں یہ گھر واقع ہے اس گاؤں میں 16 ہزار رائے دہندے ہیں جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹ چوری کس قدر منصوبہ بند انداز میں کی جارہی ہے اور یہ سب کچھ بی جے پی اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے شروع کیا گیا ۔ ایک طرف ملک میں ووٹ چوری کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف حکومت گوتم اڈانی اور ان کے کمپنیوں کی بھرپور مدد کر رہی ہے ۔ مثال کے طور پر ریاست بہار میں جے ڈی یو ۔ بی جے پی اتحادی حکومت نے اڈانی گروپ کو صرف ایک روپئے فی ایکڑ کے حساب سے 1050 ایکڑ اراضی 25 برسوں کیلئے لیز پر دی ہے۔ اس اراضی پر اڈانی گروپ تین پاور پلانٹس قائم کرے گی ۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ صرف ایک روپیہ فی ایکڑ زمین ہی لیز پر نہیں دی گئی بلکہ اس بات کی بھی طمانیت دی گئی کہ تینوں برقی پلانٹس میں پیدا ہونے والی بجلی آئندہ 25 برسوں تک 7 روپئے فی یونٹ خریدی جائے گی ۔ ہوسکتا ہے کہ عوام کو 7 روپئے فی یونٹ خریدی ہوئی بجلی 10 تا 12 روپئے فی یونٹ فروخت کی جائے گی اور اس کا بوجھ عوام پر عائد ہوگا۔ جے ڈی یو ۔ بی جے پی کی ریاستی اتحادی حکومت اور وزیراعظم کے دوست کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ویسے بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ وزیراعظم کے دوست کو کسی قسم کی پریشانی ہو۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ اگر حکومت چاہتی تو آمدنی میں اضافہ کیلئے مذکورہ اراضی کو اچھی خاصی قیمت پر فروخت کرسکتی تھی یا لیز پر دے سکتی تھی لیکن اس نے ایسا کرنے سے گریز کیا اور ایسا کیوں کیا گیا اس کی حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے ۔ اس معاملت میں ایک اور بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ حکومتی ریکارڈس میں مذکورہ اراضی کے زائد از 70 فیصد اراضی کو بنجر بتایا گیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ اس زمین پر 10 لاکھ درخت پائے جاتے ہیں جس میں مالدہ آم کے درخت بھی شامل ہیں۔ ا س سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو ماحولیات کی درختوں کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف پیسہ کمانے کی فکر ہے کیونکہ بیروزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی قرض میں ڈوبے غریب کسانوں کی فلاح و بہبود اور ملک کی معیشت کو درپیش چیلنج حکومت کی ترجیحات میں نہیں بلکہ وہ اپنے صنعت کار دوستوں پر مہربان نظر آتی ہے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو مودی ہندوستان کے نہیں بلکہ اڈانی کے وزیراعظم ہیں۔ اب عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ حکومت کی ان پالیسیوں سے حوش ہیں یا ناراض۔ ا یک بات تو ضرور ہے کہ عام آدمی پارٹی یقیناً اس ووٹ چوری کے خلاف آواز ا ٹھائے گی اور عوام کو یہ بتائے گی کہ کس طرح بی جے پی ا لیکشن کمیشن کے ساتھی ملی بھگت کے ذریعہ آپ کے ووٹ چوری کر رہی ہے ۔ ان حالات میں عوام کو چوکس ہوجانا چاہئے ۔