وہ جنگ مسلط کرتے ہیں… قیمت ہم ادا کرتے ہیں

   

نلانتا الانگا مووا
امریکہ میں ٹرمپ کی واپسی کے ساتھ ہی خون آلود میراث کو جاری رکھنے کیلئے مرحلہ طئے ہوگیا ہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور اس کا خمیازہ دنیا کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔ویتنام کی جنگ کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کا اہم موڑ اور اہم نقطہ ہونا چاہیئے تھا ، اگر دیکھا جائے تو ویتنام جنگ میں امریکہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس شکست نے دنیا پر راج کرنے ، دنیا پر اپنی مرضی و منشا مسلط کرنے والی سامراجی طاقت کو بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ رونالڈ ریگن سے لیکر جوبائیڈن تک نہ صرف امریکی جنگی مشن کی تباہی کا سلسلہ جاری ہا بلکہ اس کی جنگی مہمات میں توسیع بھی ہوئی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی بحیثیت صدر واپسی کے ساتھ ان کی نئی انتظامیہ اس خون آلود میراث کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرتی ہے، وہ بیرون ملک تباہی پھیلانے اور اندرون ملک (امریکی طاقت ) کو مستحکم کرتی ہے۔
رونالڈ ریگن کے دور میں سردجنگ کی ذہنیت کے احیاء کا نشانہ لگایا گیا تھا جسے عالمی سیاست کے بارے میں ایک سیدھا سادہ اور تقریباً کارٹونی نقطہ نظر کے ذریعہ بتایا گیا۔ رونالڈ ریگن کے انتظامیہ نے لاپرواہی ترک کرنے کے ساتھ خفیہ کاروائیوں اور فوجی مداخلتوں کا اہتمام کیا جس سے تمام براعظموں میں تباہی پھیل گئی۔ اس کے باوجود غرناطہ میں ایک معمولی جزیرہ کی قوم کے خلاف امریکہ نے حد سے زیادہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں ہزاروں کی تعداد میں عام لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے یعنی امریکی جارحیت کی قیمت غرناطہ کے عام شہریوں کو ادا کرنی پڑی۔ امریکہ نے اپنی کاروائی کو Rescue Mission کا نام دیا جو حقیقت میں کسی بھی طرح ریسکیو مشن نہیں تھا بلکہ اس کا نتیجہ بے قصور شہریوں کی تباہی و بربادی کی شکل میں برآمد ہوا۔
اب بات کرتے لبنان کی‘ رونالڈ ریگن نے وہاں زور زبردستی کے ذریعہ امریکی فوجیوں کی تعیناتی عمل میں لائی جو بڑے پیمانہ پر تباہی و بربادی پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہاں خودکش بمباری میں241 سپاہی موت کی آغوش میں پہنچ گئے جس کے جواب میں لبنانی مواضعات پر کی گئی شلباری و بمباری میں لاتعداد شہری شہید ہوئے لیکن ان شہید لبنانی شہریوں کی دردناک کہانیوں کو تاریخ کے صفحات سے مٹا دیا گیا۔ ایک اور امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے قتل و غارت گری کے سلسلہ کو پناما اور عراق منتقل کیا۔ اگر پناما میں کی گئی امریکی کارروائی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں 3000 شہری ہلاک ہوئے۔آزادانہ ذرائع کے اندازہ کے مطابق امریکی عہدہ داروں نے ہلاکتوں کی جو تعداد (3000) بتائی اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی صرف اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں شہریوں کی زندگیوں کا صفایا کیا۔ مثال کے طور پر 1991 کی خلیجی جنگ میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عراقی سپاہی اور شہری شہید ہوئے، امریکہ نے عراق میں ایسے ہلاکت خیز فضائی حملے کئے کہ کئی بستیاں زمین کے برابر ہوگئیں اور ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ اس قدر ظلم و جبر کے بعد امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاد، اس پر پابندیاں عائد کی جو ایک طرح سے اقتصادی جنگ تھی جس سے ایک اندازہ کے مطابق 500000 عراقی بچے شہید ہوئے جیسا کہ یونیسف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ میڈلین البرائیٹ نے یونیسف کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔
اب بل کلنٹن کی صدارت کے بارے میں بات کرتے ہیں‘ اکثر ان کی پُر کشش شخصیت کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں اور ایک دور ایسا بھی تھا کہ ان کے کافی چرچے ہوا کرتے تھے، ان کے دورِ صدارت میں بھی امن و سکون غارت ہوچکا تھا، ان کی ہی صدارت میں کوسوو میں نیٹو کی بمباری تقریباً 500 شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنی۔ اہم ترین اور بنیادی سہولتوں کے فضائی حملوں کی زد میں آنے کی وجہ سے سارا علاقہ افراتفری سے دوچار ہوگیا۔ صومالیہ میں بھی بل کلنٹن نے مداخلت کی اور وہ مداخلت تباہ کن ثابت ہوئی، اس موقع پر بدنام زمانہ بلیک ہاک ڈان واقعہ پیش آیا(جہاں تک بلیک ہاک ڈان واقعہ کا سوال ہے اس جنگ میں کئی ایک OH-60 بلیک ہاک ہیلی کاپٹرس کو صومالیہ میں مار گرایا گیا جس کے نتیجہ میں 18 امریکی سپاہی ہلاک ہوئے اور کم از کم 300 صومالی باشندے بشمول سپاہی اور شہری مارے گئے )۔
مذکورہ واقعہ میں صرف جانی نقصان امریکی سپاہیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ 10 ہزار صومالی شہریوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا یعنی امریکی فوجی مداخلت کے نتیجہ میں بے قصور شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح BUSH- CHENEY کے دور میں بھی خون خرابہ صنعتی سطح تک پہنچ گیا۔ ساری دنیا اس تلخ حقیقت سے بھی واقف ہے کہ سال 2003 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر قبضہ کیا اور وہ بھی جھوٹی اور فرضی خفیہ اطلاعات ؍ معلومات کی بنیاد پر اور پھر دنیا نے عراق میں بڑے پیمانہ پر جانی و مالی نقصان کا مشاہدہ کیا۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اُس جنگ میں دو لاکھ عراقی شہری شہید ہوئے اگرچہ کئی ادارے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عراق جنگ میں 2 لاکھ عراقی نہیں بلکہ 5 لاکھ عراقی باشندے جاں بحق ہوئے۔ امریکہ نے مختلف بہانوں سے افغانستان کو بھی نشانہ بنایا اور وہاں بھی تباہی و بربادی کی ایک داستان رقم کی، امریکہ پر 9/11 کا دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے اور پھر اس حملہ کا بدلہ لینے امریکہ حرکت میں آتا ہے نتیجہ میں افغانستان کو امریکہ نے قبرستان میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن افغانستان میں امریکہ کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔
افغانستان میں اگرچہ امریکی حملوں میں 70 ہزار ہلاکتیں ہوئیں لیکن امریکی اور اس کی اتحادی افواج کو بھی زبردست جانی نقصان پہنچا۔ ایک طرف افغان جنگ میں 70 ہزار سے زائد جانیں گئیں تو دوسری طرف بھوک اور امراض کے نتیجہ میں بھی ہزاروں افغان شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ بنیادی سہولتیں بھی پوری طرح تباہ کردی گئیں۔ اس تباہی و بربادی کے بعد بارک اوبامہ کی صدارت کا کا دور آیا اور پھر ڈرونس کے ذریعہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، ان کے انتظامیہ کے تحت افغانستان‘ پاکستان اور یمن کے ساتھ ساتھ صومالیہ میں کئی مقامات پر ڈرون حملے کئے گئے جس میں اندازاً 3800 لوگ مارے گئے لیکن آزادانہ تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اب لیبیا انسانی اسمگلنگ کا مرکز اور پناہ گاہ بن گیا ہے، کرایہ کے سپاہیوں اور ان کے سرداروں کی آماجگاہ میں تبدیل ہوگیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی میعاد میں بھی لیبیا کے مفادات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔
ایک اور اہم بات کہ امریکہ کے فضائی حملوں میں جو شام اور عراق میں کئے گئے ان میں جو کچھ جانی و مالی نقصان ہوا اس بارے میں دروغ گوئی سے کام لیا گیا جبکہ آزادانہ تحقیقات کرنے والوں نے صرف 2017 میں کم از کم 4500 شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں صومالیہ میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ مہلوکین میں خواتین اور بچوں کی اکثریت تھی( یہ حملہ صومالیہ کے ایک دور دراز کے گاؤں میں کیا گیا تھا )۔ امریکہ نے یمن میں خانہ جنگی بھڑکائی، سعودی عرب کو بم اور فوجی مدد فراہم کی‘ اس طرح اس نے جیسا کہ اقوام متحدہ نے کہا دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا کیا ۔ بعض اندازوں کے مطابق یمن کی خانہ جنگی میں 377000 سے زائد یمنی باشندے ہلاک ہوئے ان میں سے کئی قحط و بھوک اور امراض میں مبتلاء ہوکر ہلاک ہوئے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یمن میں مسلسل بمباری کے ذریعہ سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔ جوبائیڈن انتظامیہ نے اہم سفارتکاری کا وعدہ کرنے کی بجائے تشدد کو ہوا دی۔ جہاں تک افغانستان جنگ کا سوال ہے یہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ رہی۔ امریکی تخلیہ کے دوران آئی ایس آئی ایس کے کی بمباری میں کم از کم 170 شہری مارے گئے۔ بائیڈن نے شام میں ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کیلئے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو بہانہ بنایا۔ یوکرین میں بھی امریکہ نے جنگ بھڑکانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، اس نے یوکرین کی مدد کی اور دنیا نے دیکھا کہ روس اور یوکرین دونوں کو زبردست جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اگر ہم پچھلے کئی دہوں سے مختلف ملکوں میں امریکی مداخلت کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ آزادی یا جمہوریت کیلئے جنگیں نہیں کرتا بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مختلف ملکوں کو تباہ کردیتا ہے۔