وہ کتابیں جن کی ہمارے بچوں کو ضرورت ہے

   

یوگیندر یادو
گذشتہ ماہ مجھے ایک بہت ہی خوبصورت تحفہ موصول ہوا، سمائے پوسٹ کا ایک شاندار ڈیزائن کردہ اور اچھی طرح سے پیاک شدہ باکس جس میں ممتاز شاعر و نغمہ نگار گلزار کی بچوں کیلئے لکھی گئیں 14 کتابیں تھیں یعنی وہ باکس گلزار کی 14 کتابوں پر مشتمل تھا اور ان کتابوں کی خوبی یہ ہے کہ گلزار نے ان میں Allen Shaw کی شاندار عکاسیوں کو شامل کیا۔ اکثر لوگ گلزار کے بارے میں یہی جانتے ہیں کہ وہ ایک نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگار ہیں جبکہ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ وہ بچوں کے ادب کی ممتاز شخصیتوں میں سرِفہرست ہیں۔ بچوں کیلئے کہانیاں بھی لکھتے ہیں جو نہ صرف سبق آموز ہوتی ہیں بلکہ بچوں کو ان کہانیوں سے ایک نیا عزم و حوصلہ بھی ملتا ہے۔ اس سریز میں میری پسندیدہ نظمیں ’’ اٹ پٹانگ‘‘ میں ( جو سوکمار رائے کی الول ٹایول کی یاد دلاتی ہیں ) اور یہ کوے کالے کالے ہیں جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ آخر کوؤں نے اپنا رنگ کیسے لیا ؟ ایک تارہ ( نقوش، جگنو ) کی یہ تازہ ترین پیشکش کوئی متشیٰ نہیں تھی۔ اس سے قبل بھی میں عالمی کتب میلہ میں ان کے اسٹال پر خاص طور پر بچوں کیلئے ان کی کتابوں کی رینج اور معیار سے محظوظ ہوا تھا، مسحور ہوا تھا۔ واضح تصاویر پر مبنی کتابیں، پوسٹرس، نظموں کے کارڈس، کہانیوں کی کتب اور مختصر ناولوں کے ساتھ ساتھ ان کے اسٹال میں پلوٹو اور سیکل میگزینس بھی بالخصوص بچوں کو دعوت مطالعہ دے رہی تھیں۔ ان کے اسٹال پر مذکورہ جو بھی اسٹاک رکھا گیا تھا وہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کیلئے بھی ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔
میں آپ کو ان دنوں کی بات بتارہا ہوں جب میں اور میری شریک حیات اپنے دو بچوں کیلئے اب جن کی عمریں 25 اور 20 سال ہیں‘ ہندوستانی ادب کی معیاری کتابیں تلاش کیں جس کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے بچے اپنے ہندی اور بنگالی ورثہ سے دور ہوکر صرف انگریزی میں بات چیت کرنے والے بچے نہ بن جائیں۔ ہمارے بچپن میں جو کتابیں بچوںکیلئے ہوتی تھیں ان میں اور آج کی کتابوں میں اگرچہ کافی فرق پایا جاتا ہے لیکن دونوں ادوار کی بچوں کی کتابوں میں ایک بات مشترک ہے وہ یہ کہ ان میں ایسا مواد شامل ہوتا ہے جس کے ذریعہ بچوں کی شخصیت سازی کی جاتی ہے، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا جاتا ہے، ان کیلئے ایسی کہانیاں، نظمیں وغیرہ تصاویر کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں جس سے بچوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ ہمارے بچپن میں اکبر، بیربل، چاچا چوہدری، تینالی رام اور پنچ تنترا کی کہانیوں یا پھر ویٹل اور امرچترا کھتا جیسی کامک بکس، ایک بونس ) پڑھنے کو ملتی تھیں۔ اس طرح چمبک، پراگ اور لوٹ پوٹ جیسی میگزینس مطالعاتی شوق کو پورا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتیں۔ بعد میں ہم نے دریافت کیا کہ عوامی شعبوں کے دو ناشرین نیشنل بک ٹرسٹ (NBT) اور چلڈرنس بک ٹرسٹ (CBT) کے یہاں کچھ بہترین عنوانات اور موضوعات پر کتابیں ہیں۔ جیسے مِکی پٹل کی روپا ہاتھی، ہمارے بچوں کیلئے موزوں و مناسب ہیں۔ کبھی کبھار ہم نے آزاد ناشرین کے یہاں بھی معیاری کتابیں پائیں۔ آپ کو یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کملا بھاسن کی ملو بھالو کی کہانی ہمارے دونوں بچوں کی رات بستر پر جانے سے قبل سنائی جانے والی یا سُنی جانے والی پسندیدہ کہانی ہوتی۔ ان لوگوں نے Ikki Dokki ( یہ مہاراشٹرا کی بہت ہی خوبصورت لوک کہانی ہے ) کے ذریعہ Tulika Books تک اور پھر RAJA KAPI کے ذریعہ کرڈی کہانیوں کے آڈیو بکس تک رسائی حاصل کی ۔ یہ دراصل بندر بادشاہ کی کہانی پر مشتمل کتابیں ہیں اس کے علاوہ مختلف ہندوستانی زبانوں کی کہانیوں کو ہندی اور بنگالی زبانوں میں ترجمہ کے ذریعہ منتقل کیا گیا۔ ان کتابوں سے بھی ہم نے اپنے بچوں کو روشناس کروایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان نئی ادبی تخلیقات کی کافی تلاش بھی کرنی پڑی۔ اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بچوں کے ادب یا بچوں کی کہانیوں اور نظموں پر مشتمل کتابوں کے معیار، ان میں پیش کی جانے والی تصاویر اور بچوں کے لئے خصوصی کتابوں کی تیاری میں کون آگے ہے ہندوستان یا یوروپ و امریکہ تب ہمارا جواب یہی ہوگا کہ اس معاملہ میں یوروپ اور امریکہ سے ہم مسابقت نہیں کرسکتے۔ بہر حال یہ ایک ایسے ملک میں بڑے افسوس کی بات ہے جہاں افسانوں اور اساطیری کہانیوں (داستانوں ) کا بھرپور زبانی اور تحریری خزینہ وہ ورثہ پایا جاتا ہے ہمیں اس بات پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہماری کوئی بھی کتاب The GRUFFALO یا جو لیا ڈونالڈسن کی دوسری کتابوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ہم آخر کار یہ تہذیبی و ثقافتی جنگ ہیری پورٹر سے ہار گئے۔
یہاں ایک اور بات واضح کردوں کہ اگر بچوں کے ادب کا معیار کسی ملک و قوم کے معیار زندگی کا پیمانہ اس کی کسوٹی ہے تو اس معاملہ میں ہمارا مظاہرہ اچھا نہیں۔ دو ماہ قبل مجھے چینائی میں TULLIKA BOOKS کے دفتر؍ شاپ پر جانے کا موقع ملا۔ یہ دراصل بچوں کے ادب کی نئی لہر کی علمبرداروں میں سے ایک ہے ، میں وہاں اس لئے گئے تھا تاکہ یہ دیکھوں کہ موجودہ دور میں بچوں کے ادب کی حالت بدلی ہے یا نہیں اور واقعی میں بچوں کے ادب کی حالت بدلی ہے ۔ اپنی ابتدائی اشاعتوں جیسے IkkiDokki کی کامیابی پر اس نے بچوں کے ادب کی عمارت تعمیر کرلی ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ TULLIKA BOOKS کے پاس 9 زبانوں میں ہزار سے زآئد عنوانات و موضوعات پر کتابوں کا کلکشن موجود ہے۔TULLIKA کی بانی رادھیکا مینن نے ہندوستان میں بچوں کی کتابوں یا بچوں کے ادب میں آئی بڑی تبدیلیوں سے تفصیلی طور پر واقف کروایا خاص طور پر انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں بچوں کیلئے انگریزی میں کتابیں شائع ہورہی ہیں اور وہ بھی بڑے پیمانے پر۔ ویسے بھی ہندوستان میں جب بچوں کے ادب کی بات آتی ہے تو ایک تارا، ایکلویہ، پرتھم ، کتھا، کرڈی ٹیلس، تارا، سیکل یاک ، ڈک بل اور ٹاکنگ کب جیسے آزادانہ پبلیکشنس کا ذکر بھی ضروری ہے۔
بہر حال ہمارے ملک میں بچوں کے ادب کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کیلئے پبلیکشن ہاوزس اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے کیونکہ یہ ادب بچوں کی ذہنی تربیت میں ہم کردارادا کرتا ہے۔