امریکی صدر بائیڈن صدارتی منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا
ویانا : گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایران نے اپنے پراکسی گروہوں کی مدد سے مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ عراق، شام اور یمن میں ایران حمایت یافتہ گروہوں کی جانب سے امریکہ اور سعودی اہداف کے خلاف حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔عرب نیوز کے مطابق بڑھتے ہوئے حملوں کی ایک وجہ امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کا موقع بھی ہو سکتا۔ لیکن چند ماہرین کے خیال میں حملوں کی بنیادی وجہ ایران اور امریکہ کے درمیان ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات کی بحالی ہے۔مذاکرات آگے بڑھنے پر ایرانی حکام حد سے زیادہ پر امید ہیں کہ معاہدہ طے پانے کے قریب ہے جس سے ایران کے مالیاتی اور سیاسی اداروں پر عائد امریکی پابندیوں میں نرمی پیدا ہوگی۔اس تمام معاملے سے واقف ایک عہدیدار نے عرب نیوز کو بتایا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان طے ہونے والے نئے سمجھوتے کے بنیادی خدو خال تیار ہیں۔ تاہم ایران کی جانب سے کیا گیا مطالبہ کہ اگلا امریکی صدر نیوکلیئرمعاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا، نے مذاکرات میں رکاوٹ کھڑی کی ہوئی ہے۔ سال 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نیوکلیئرمعاہدے پر تنقید کرتے ہوئے اس سے دستبردار ہو گئے تھے۔ اس اقدام کے جواب میں ایران نے بین الاقوامی انسپکٹرز کے ساتھ تعاون کرنا ترک کر دیا تھا جو ایرانی نیوکلیئرانفراسٹرکچر اور یورینیم افزودگی کی سطح پر نظر رکھتے تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے صدارتی منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی ایران کے ساتھ ہونے والے نیوکلیئرمعاہدے مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او آئی) کی بحالی کی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ تاہم صدر جو بائیڈن کو اس فیصلے پر علاقائی اتحادیوں کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔اسرائیل میں نیشنل سکیورٹی سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ میں ایران پر ماہر تجزیہ کار ڈاکٹر راس زمت نے بتایا کہ شام اور عراق میں ہونے والے حالیہ حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ایک بنیادی وجہ قاسم سلیمانی کے قتل کی دوسری برسی ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے برسی کے موقع پر خطاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سابق صدر سے بدلہ لینے کے عہد کا اظہار کیا۔