ٹائمز ناؤ پُرامن بقائے باہم کی تاریخ کو مسخ کرنے کوشاں

   

Ferty9 Clinic

رام پنیانی

ٹی وی چیانل ’ٹائمز ناؤ‘ کے 7 اکٹوبر کو نشرکردہ پروگرام ’’انڈیا اَپ فرنٹ‘‘ میں دعویٰ کیا گیا کہ کانگریس اپنے ارکان میں 128 صفحات کا کتابچہ گشت کراتے ہوئے ’’آر ایس ایس نظریۂ تاریخ کا جواب‘‘ پیش کررہی ہے۔ چند گوشوں کو ہی اعتراض ہوسکتا ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اکثریتی نظریۂ تاریخ کے خلاف ٹھوس مواد پیش کیا جائے۔ آر ایس ایس کے نقطہ نظر میں کئی معاملوں میں حقائق کو توڑ مروڑ کر غلط انداز میں پیش کرنا، دانستہ دروغ بیانی اور کسی کسی موقع پر بالکلیہ من گھڑت باتیں حقیقت کو ہٹاکر گھسا دینا شامل ہیں۔
تاریخ کے آر ایس ایس چربہ کی طرح ٹائمز ناؤ کے پروگرام نے متذکرہ کتابچہ کی غلط تصویر پیش کی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس میں ’’محمود غزنوی اور دیگر فرقہ پرستوں کی پھیلائی ہوئی نفرت کو معاف کردیا ہے‘‘ اور ’’ہندوؤں پر نفرت کے زیراثر ڈھائی گئی زیادتیوں کو فراموش بھی کردیا‘‘۔ حالانکہ کتابچہ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں ’انڈین نیشنلزم اینڈ تھریٹ آف کمیونلزم‘ کا مصنف ہوں، جس کی وہ بات کررہے ہیں، اور میں نے 2017ء میں اپنی باقاعدہ تحریر میں وہ نفرت اور انتشار آشکار کرنے کی کوشش کی، جس کی آر ایس ایس اور ٹائمز ناؤ حمایت کررہے ہیں۔
یرقانی آنکھیں
’’ٹائمز ناؤ‘‘ کے پروگرام نے میری کتاب کے محض ایک باب پر ساری توجہ مرکوز کردی، اور اسے موجودہ دور کی یرقانی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ میں نے تاریخ میں شامل ہندوستانی حکمرانوں کے مذہب کو بنیاد بنا کر مسلم بادشاہوں کو اذیت رساں ؍ ظالم کے طور پر پیش کئے گئے نقطہ نظر کو یکسر مسترد کردینے کی کوشش کی ہے۔ اس پروگرام نے عام رائے کو تقویت دی کہ مسلم بادشاہ محض مندروں کو تباہ کرتے رہے اور ان کا واحد مشن ہندوؤں کو تلوار کے زور پر اسلام قبول کرانا تھا۔
درحقیقت، میری کتاب مختصر خاکہ پیش کرتی ہے کہ کس طرح ہندوستان کا متعدد منتشر رجواڑوں؍ مملکتوں؍ سلطنتوں سے جدوجہد آزادی کی طرف بدلاؤ ہوا، تاکہ سامراج حکمرانی سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔ میں نے برطانوی راج کے دوران ہندوستانی قوم پرستی کے فروغ کو کئی تبدیلیوں کے نتیجے سے منسوب کیا ہے، جہاں عصری تعلیم، عصری صنعت اور عصری ذرائع مواصلات اور حمل و نقل میں ترقی صنعت کاروں، ورکرس اور تعلیم یافتہ طبقات کے فروغ کا موجب بنی۔ ان گروپوں سے کئی تنظیمیں اُبھریں جیسے بھگت سنگھ کی نوجوان بھارت سبھا، شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن اور مؤثر انڈین نیشنل کانگریس۔ میری کتاب Indian Nationalism and Threat of Communalism انگریزوں کے خلاف احتجاجوں میں عام لوگوں کے رول کو کھوجتی ہے۔ اس نے نہ صرف ہندوستانی زندگی میں آزادی اور مساوات کیلئے بنیاد رکھی بلکہ ہندوستانی بھائی چارہ کے احساس کو تقویت پہنچانے میں مدد بھی کی۔
ہندوستان کے اس عمومی طور پر قابل قبول نظریہ کی مسلم لیگ نے مخالفت کرتے ہوئے علحدہ اسلامی ملک کا مطالبہ کیا، اور ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس نے اپنے آغاز سے ہی خالص ہندو راشٹر کا قیام چاہا۔ میری کتاب کا مطمح نظر ہندوستانی قوم پرستی کی تاریخ کا ویژن ہے جو موہن داس گاندھی نے بہترین پیرائے میں اپنی کتاب ’’ہند سوراج‘‘ میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے لکھا:
’’ہندوؤں کا پھلنا پھولنا مسلم مقتدر اعلیٰ مملکتوں کے تحت ہوا اور اسی طرح ہندوؤں کے تحت مسلمانوں نے ترقی کی۔ ہر فریق کو تسلیم ہے کہ باہمی رسہ کشی خود کیلئے نقصان دہ ہے، اور یہ کہ کوئی بھی فریق اپنا مذہب ہتھیاروں کے زور پر ترک نہیں کرے گا۔ لہٰذا، دونوں فریقوں نے امن سے رہنے کا فیصلہ کیا۔ انگریزوں کی آمد پر جھگڑے پھر شروع ہوئے۔ کیا ہمیں یہ یاد نہیں رکھنا چاہئے کہ کئی ہندوؤں اور امت محمدیؐ کے پروانوں کے یکساں آبا و اجداد ہیں اور اُن کی رگوں میں یکساں خون دوڑ رہا ہے؟ کیا لوگ اپنا مذہب بدلنے پر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں؟ کیا مسلمان کا خدا ، ہندو کے بھگوان سے مختلف ہے؟ مذاہب یکساں نکتہ پر ملنے والی مختلف راہیں ہیں۔‘‘
مگر ٹائمز ناؤ نے میری کتاب کے مرکزی دلائل کو یکسر نظرانداز کیا۔ شاید اس چیانل کے ایڈیٹرز لاعلم ہیں کہ بادشاہوں کی حرکتوں کو اُن کے مذہب سے جوڑنے کی کوشش ہی سامراج تاریخ نویسی کا پراجکٹ رہی، جس پر انگریزوں نے اپنی ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی پالیسی کو آگے بڑھانے کیلئے عمل کیا۔
متذکرہ پروگرام میں تین مسلم حکمرانوں کو نمایاں کیا گیا: محمود غزنوی، اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان۔ یہ نشاندہی کی گئی کہ غزنوی نے سومناتھ مندر کی دولت لوٹنے کیلئے بار بار حملے کئے، اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسلم کی حیثیت سے وہ مورتیوں کو تباہ کرنے والا رہا۔ پروگرام میں یہ تذکرہ بھی کیا گیا کہ اورنگ زیب نے ہندو مندروں کو بھی عطیات دیئے اور گولکنڈہ میں ایک مسجد کو اس لئے منہدم کرا دیا کہ گولکنڈہ کے حکمران نواب تانا شاہ نے اس مغل شہنشاہ کو خراج تحسین پیش نہیں کیا تھا۔ لیکن ٹائمز ناؤ اس حرکت سے کوئی مفہوم نکالنے سے قاصر رہا۔ اسی طرح، چیانل نے یہ حقیقت ماند کردی کہ ٹیپو نے ایک ہندو مندر کو بحال کیا جس پر مرہٹوں نے پابندی لگا دی تھی۔
ایسا خیال کہ ’’اسلامی استبداد‘‘ کا کئی صدیوں تک ہندوستان پر غلبہ زیادہ گہرائی سے جانچ کا متقاضی ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بادشاہوں میں لڑائیاں مذہبی خطوط پر نہیں بلکہ اقتدار اور دولت کیلئے ہوتی رہیں۔ مگر ٹائمز ناؤ کے پروگرام نے اپنی بات کو کسی طرح ثابت کرنے کیلئے مسلم اور ہندو حکمرانوں کے درمیان رقابت کی بعض مخصوص مثالوں کو نمایاں کیا۔ جیسا کہ اینکر نے اعتراف کیا ہے، غزنوی، اورنگ زیب اور ٹیپو تمام نے اپنی فوجوں میں ہندوؤں کو شامل رکھا تھا۔ مجھے یہ امر بھی اُجاگر کرنا چاہئے کہ انھوں نے ہندو منتظمین بھی مقرر کر رکھے تھے۔
واضح تاریخ
مسلم فوجوں کی گیارہویں صدی سے شمالی ہندوستان میں پیش قدمی سے کافی قبل برصغیر میں اسلام متعارف ہوچکا تھا۔ یہ مذہب عرب تاجروں کے ذریعے ساتویں صدی میں مالابار ساحل تک پہنچ چکا تھا۔ اس ابتدائی تاریخ کی علامت کیرالا کے ضلع تھریسور میں چیرامن جامع مسجد کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے، جسے ہندوستان کی اولین مسجد سمجھا جاتا ہے۔
میری کتاب میں، قرون وسطیٰ کے سماج میں تکثیریت کے بارے میں ایک مکمل باب ہے، جو بھکتی۔ صوفی امتزاج ضدین کی روایت کو اجاگر بھی کرتا ہے۔ اس پہلو کو ٹائمز ناؤ نے ظاہر ہے نظرانداز کردیا۔ مجھے دکھ پہنچا جس طرح میری کتاب کے مخصوص اقتباسات کو پڑھتے ہوئے پیش کیا گیا۔ کتاب کا بنیادی پیام اس پروگرام کے پس پردہ کارفرما لوگ ظاہر ہے سمجھ نہیں پائے: کہ تمام مذاہب کے افراد ہندوستان میں صدیوں تک مل جل کر جیتے رہے، چاہے اُن کے حکمران ہندو رہے ہوں یا مسلمان۔ یہ واضح ہے کہ حقیقی، متوازن اور منطقی نظریۂ تاریخ اس طرح کے ٹیلی ویژن چیانلں کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔٭
[email protected]