’’ ٹارگٹ کانگریس‘‘ بی آر ایس اور بی جے پی کی مشترکہ حکمت عملی

   

سروے رپورٹ میں کانگریس کو برتری، کے سی آر خوفزدہ، تلنگانہ میں اقتدار سے روکنا مشترکہ ایجنڈہ، مخالف بیان بازی میں اچانک شدت

حیدرآباد۔/13 ستمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی انتخابات چیف منسٹر اور بی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کیلئے کرو یا مرو کی صورتحال بن چکے ہیں۔ ریاست میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران کانگریس پارٹی کے گراف میں اضافہ اور 16 تا 18 ستمبر کانگریس کے قومی قائدین کی حیدرآباد میں موجودگی اور جلسہ عام نے بی آر ایس قائدین کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے بااعتماد قائدین سے مشاورت کے بعد کانگریس کی پیش رفت کو روکنے کی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت تمام وزراء اور قائدین کو ہدایت دی گئی کہ وہ ہر مسئلہ پر کانگریس پارٹی کو نشانہ بنائیں۔ یہ محض اتفاق ہے یا پھر کوئی حکمت عملی کہ بی آر ایس اور بی جے پی دونوں کا مشترکہ ٹارگٹ کانگریس بن چکی ہے۔ دراصل تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں دونوں پارٹیوں کو کانگریس سے خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں پارٹیوں نے ہر موضوع پر کانگریس کے خلاف بیان بازی اور کانگریس کے الزامات کا جواب دینے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں پارٹیوں کو یقین ہے کہ کانگریس کو کمزور کرتے ہوئے وہ زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ موجودہ تازہ ترین صورتحال کے بارے میں برسراقتدار پارٹی کے سروے میں کانگریس اور بی آر ایس کے درمیان ووٹ کا فرق محض 2 فیصد ہوچکا ہے اور بی جے پی تیسرے مقام پر بڑے فرق کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس کے حق میں عوامی رجحان اسی طرح برقرار رہا تو اسمبلی انتخابات تک کانگریس اقتدار کے قریب پہنچ جائے گی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق چیف منسٹر کے سی آر نے تازہ ترین سروے سے اپنے بااعتماد ساتھیوں کو واقف کرایا اور عوامی رجحان کو بی آر ایس کی طرف موڑنے کی حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت دی جس کے تحت بی آر ایس انتخابی منشور میں عوام کیلئے نئے وعدوں کی تیاری کررہی ہے۔ کانگریس کی جانب سے 17 ستمبر کو جاری کئے جانے والے 5 وعدوں کا جائزہ لینے کے بعد چیف منسٹر بی آر ایس کی جانب سے بھی اسی طرح کے اعلانات کرسکتے ہیں۔ بی آر ایس اور بی جے پی اگرچہ آپس میں خفیہ مفاہمت سے انکار کررہے ہیں لیکن دونوں پارٹیوں کے قائدین نجی گفتگو میں اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ کانگریس کو تلنگانہ میں روکنا ضروری ہے۔ سابق میں جب کبھی کانگریس متحدہ آندھرا پردیش میں برسراقتدار رہی مرکز میں کانگریس کی حکومت رہی۔
کانگریس نے 26 اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ اپوزیشن اتحاد INDIA تشکیل دیا ہے جو لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ان حالات میں بی جے پی اور بی آر ایس کی اولین ترجیح تلنگانہ میں کانگریس کو اقتدار سے روکنا ہے۔ ریاستی صدر کشن ریڈی نے بی جے پی قائدین کو مخالف کانگریس موقف کی ہدایت دی ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت کے ٹی راما راؤ، ہریش راؤ اور دیگر ریاستی وزراء نے کانگریس کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور کانگریس کے انتخابی وعدوں کو نشانہ بناتے ہوئے عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کانگریس صرف ووٹ حاصل کرنے کیلئے یہ اعلانات کررہی ہے۔ ریاستی وزراء اور عوامی نمائندوں کے علاوہ حیرت تو اس بات پر ہے کہ دستوری عہدوں پر فائز پوچارم سرینواس ریڈی اور جی سکھیندر ریڈی بھی سیاسی بیان بازی میں پیش پیش ہیں حالانکہ اسپیکر اسمبلی اور صدرنشین قانون ساز کونسل کے عہدوں پر فائز رہتے ہوئے سیاسی بیان بازی زیب نہیں دیتی۔ بتایا جاتا ہے کہ 16 ستمبرکو حیدرآباد میں کانگریس ورکنگ کمیٹی اجلاس اور 17 ستمبر کو مضافاتی علاقہ تکوگوڑہ میں جلسہ عام تک کانگریس کو ہر محاذ پر نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کانگریس کو تین مقامات پر جلسہ کی اجازت سے انکار کیا ہے۔ پریڈ گراؤنڈ پر مرکزی حکومت نے 17 ستمبر کو حیدرآباد لبریشن ڈے کا اعلان کیا اور کانگریس کو پریڈ گراؤنڈ سے محروم کردیا گیا۔ بی آر ایس حکومت نے گچی باؤلی اسٹیڈیم کی اجازت نہیں دی اور مضافاتی علاقہ تکوگوڑہ میں انڈومنٹ اراضی کے نام پر جلسہ عام کے انعقاد سے روک دیا۔ کانگریس نے اسی علاقہ میں کسانوں کی اراضیات کو جلسہ عام کیلئے حاصل کیا ہے۔ الغرض کانگریس کے قومی قائدین کی آمد اور جلسہ عام سے کانگریس کے گراف میں مزید اضافہ کا امکان ہے لہذا بی آر ایس اور بی جے پی نے کانگریس کے خلاف بیان بازی تیز کردی ہے۔