امریکی صدر نے سعودی فرمانروا کو فون کیا ، ٹرمپ کو خلیج میں تلخی ختم ہوجانے کی امید
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود سے فون پر بات چیت کی جس کے دوران دونوں قائدین نے علاقائی سلامتی اور کلیدی باہمی مسائل پر غوروخوض کیا۔ وائیٹ ہاؤز نے جمعرات کو اس فون کال کے بارے میں بتایا کہ صدر ٹرمپ نے شاہ سلمان کو ان کی قیادت کیلئے مبارکباد دی اور خلیج میں تلخی ختم ہوجانے کے تعلق سے اپنی پرامیدی کا اظہار کیا۔ دونوں قائدین نے خطہ کے مختلف دیگر موضوعات پر بھی بات چیت کی۔ ٹرمپ کا فون کال ایسے وقت ہوا ہے جبکہ ان کا نظم و نسق 20 جنوری کو سبکدوش ہونے والا ہے جب صدر منتخب جوبائیڈن سرکاری طور پر حلف لیں گے۔ ٹرمپ نے ابھی تک شکست تسلیم نہیں کی ہے اور اپنے الزامات ثبوت کے بغیر دہراتے جارہے ہیں کہ 3 نومبر کا الیکشن جو انہوں نے ہارا، اس میں رگنگ کی گئی۔ امریکہ اور سعودیہ کا رشتہ ٹرمپ نظم و نسق کے دوران ہمیشہ ملا جلا رہا۔ ان کی صدارت کی شروعات سے ٹرمپ نے سعودی عرب کو مخصوص درجہ میں رکھا اور اپنی مشرق وسطیٰ پالیسی میں سعودی سلطنت کا خاص مقام رکھا۔ ایران کے خلاف اس کے موقف کی حمایت کی گئی اور امریکی ساختہ ہتھیاروں کو خریدنے سعودیہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ تاہم بائیڈن نے تیل کی دولت سے مالامال سلطنت کے ساتھ امریکی روابط کا ازسرنو جائزہ لینے کا عہد کیا ہے اور ایسا لگتا ہیکہ سعودی عرب کو بائیڈن نظم و نسق کے ساتھ کچھ حد تک کم مراعات حاصل ہوں گے جو اسے ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے دوران حاصل تھے۔ ٹرمپ نے سعودی عرب کی اس وقت بھی تائید کی جب سی آئی اے نے رپورٹ دی کہ طاقتور ولیعہد نے سعودی جرنلسٹ جمال خشوگی کی سفاکانہ ہلاکت کا حکم دیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار خشوگی کو اکٹوبر 2018ء میں استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانہ میں قتل کیا گیا تھا۔ دوسری طرف بائیڈن نے سعودی عرب کو ایسی طاقت قرار دیا جس کے ولیعہد کے احکام پر خشوگی کو قتل کیا گیا۔ بائیڈن نے یہ بات بھی کی ہیکہ وہ ریاض کو ہتھیاروں کی فروخت روک دیں گے اور دنیا بھر میں سیاسی ناراض عناصر کے حقوق کا دفاع کرنے کا عہد بھی کیا ہے جو سعودی عرب کا بھی احاطہ کرتا ہے جہاں کئی ناراض عناصر کو قید میں رکھا گیا ہے۔