نیویارک ۔ 14 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر کی جانب سے سخت پابندیوں کی دھمکی کے بعد رواں ہفتے کے آغاز پر ترک لیرا کی قدر میں 0.6 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔ تاہم ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں کہ آیا امریکہ واقعی ایسا کوئی قدم اٹھائے گا۔گزشتہ ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی کی قدر 5.885 تھی جو پیر 14 اکتوبر کو گر کر 5.9205 رہ گئی۔ یوں رواں سال مئی کے بعد ترک لیرا اپنی کمزور ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس سال اب تک مجموعی طور پر ترک لیرا کی قدر میں 12 فیصد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ صرف اکتوبر کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے، تو ترک لیرا کی قدر 4.8 فیصد گری ہے۔ترکی نے گزشتہ ہفتے شمال مشرقی شام میں کردوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ پیر چودہ اکتوبر کو اس عسکری کارروائی کو شروع ہوئے چھ دن ہو گئے ہیں۔ اس دوران عالمی سطح پر ترکی کی مذمت جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ اختتام ہفتہ پر انقرہ حکومت کے خلاف سخت پابندیوں کے نفاذ کی دھمکی دی جبکہ یورپی یونین میں بھی ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت پر وسیع تر پابندی زیر غور ہے۔البتہ کاروباری حلقے امریکی صدر کی جانب سے ترک اقتصادیات کو ‘تباہ کر ڈالنے‘ کی دھمکی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے۔ حال ہی میں پایہ تکمیل تک پہنچنے والی روسی S-400 طرز کے میزائل دفاعی نظام کی خریداری اور فراہمی کے وقت بھی امریکہ نے ایسی ہی دھمکیاں دی تھیں تاہم کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تجارتی و کاروباری حلقے اس بار بھی کسی عملی قدم کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں۔’بلو بے ایسٹ مینیجنمنٹ‘ سے وابستہ ٹم ایش کا کہنا ہے کہ روسی S-400 میزائل دفاعی نظام کی ڈیل کے وقت کافی باتیں ہوئیں لیکن کچھ نہ ہوا۔ اس لئے منڈیوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ، ترکی کے خلاف حقیقی و با معنی پابندیاں عائد کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔امریکی سیکرٹری خزانہ اسٹیون منوچن نے گزشتہ ہفتے جمعے کے دن کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف انتہائی سخت پابندیوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس پر انقرہ حکومت نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پابندیوں کا جواب پابندیوں سے دیا جائے گا۔ پھر اتوار کو ٹرمپ نے بیان دیا کہ پابندیوں پر اراکین کانگریس کی مشاورت سے کام جاری ہے۔