ٹرمپ خود غرض اور اَنا پرستمودی دوستی کا دم نہ بھریں

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ساری دنیا میں آج کل حقوق انسانی، حقوق انسانی سے متعلق عالمی چارٹر، حکومتوں، حکمرانوں کے اقدامات، جمہوریت کی کمزوریوں اور اس کے استحکام پر مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک انسانی حقوق سے متاثر چارٹر کا سوال ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ حقوق کا پہلا چارٹر ماگنتا کارتا ہے جس سے 1215 میں برطانیہ کے بادشاہ نے اتفاق کیا تھا۔ اسی طرح یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کی پہلی پارلیمنٹ Althing آئس لینڈ تھی جس کا قیام1262 ء میں عمل میں آیا تھا۔ دوسری جانب پہلی قانون ساز اسمبلی یا قانون ساز ادارہ کی جب بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے ادارہ کا پہلی مرتبہ 1341 میں برطانیہ میں قیام عمل میں آیا تھا۔ آپ کو بتادیں کہ مذکورہ قانون ساز ادارہ کو Bicameral Legislature کہا جاتا ہے جو دو علیحدہ اسمبلیوں یا ایوانوں میں تقسیم ہوتی ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا، امریکہ میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ ہوتے ہیں اور ہر ایوان کے اپنے اختیار تمیزی اور افعال ہوا کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ دنیا کے جس ملک میں پہلا تحریری آئینی یا دستور منظر عام پر آیا، باالفاظ دیگر جو دستور مدون کیا گیا، وہ جمہوریہ سان ماریتو ہے جہاں 1600 میں ہی تحریری دستور منظر عام پر آچکا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ جہاں تک علیحدہ علیحدہ اختیارات کا معاملہ ہے، اس کا نظریہ فرانسیسی فلسفی مانٹیکیو کے 1748ء میں شائع ہوئے Spirit of Laws سے منسوب ہے اور ہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ کو سب سے پہلے 24 ستمبر 1789ء میں عدالتی اختیارات تفویض کئے گئے یعنی امریکہ میں سب سے پہلی مرتبہ ایسا کیا گیا جس سے عدلیہ کے اختیارات میں زبردست اضافہ ہوا۔
آئینی تاریخ کے عظیم اور اچھے اسباق کو امریکی آئین میں مجسم کیا گیا تھا اور اسے ہندوستان کے آئین کے بنانے والوں (معمارانِ دستور) کے بشمول کئی ممالک نے نقل کیا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی قیادت میں آزاد اور جمہوریت ملکوں نے ایک نیا عالمی نظام بنانے کا وعدہ کیا جو جنگ، غربت اور بیماری کا خاتمہ کرے گا۔ اگرچہ نیا ورلڈ آرڈر مقامی جنگوں کو ختم نہیں کرواسکا اس کے باوجود وہ کافی حد تک کامیاب رہا۔ دنیا نے کبھی تقریباً 80 برسوں کے بہ نسبتاً امن، بے مثال ترقی اور وسیع پیمانے پر خوشحالی کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ اس لئے یہ ایک بڑے جھٹکے کے طور پر سامنے آیا ہے کہ پچھلے تین برسوں کی پیشرفت اور خاص طور پر 20 جنوری 2025ء کے بعد کی پیشرفت سے دنیا کی خود غرضی اور آمرانہ سانچے میں ڈھلنے کا خطرہ ہے۔ (واضح رہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ری پبلیکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیابی ملی اور انہوں نے 20 جنوری 2025ء کو صدارتی عہدہ کا حلف لیا جس کے بعد انہوں نے جس طرح کے ایگزیکٹیو آرڈرس پاس کئے، صدارتی احکامات جاری کئے اور مختلف ملکوں کے ساتھ جس طرح کا معاندانہ رویہ اختیار کیا، اس نے ساری دنیا کو حیرت میں غرق کردیا)
صدر امریکہ کا دفتر ساری دنیا میں اپنی ایک منفرد حیثیت و شناخت رکھتا ہے، ایک مقام رکھتا ہے اور اسے یہ منفرد مقام اصل میں وسیع تر اور مخصوص و غیرمعینہ اختیارات کی وجہ سے حاصل ہے۔ ایک طرف امریکی صدر کے دفتر کو غیرمعمولی اختیارات حاصل ہیں تو دوسری طرف امریکہ، دنیا کا دولت مند ترین اور طاقتور ملک ہے چنانچہ امریکہ کے دولت مند طاقتور و باثر ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ولیم میکن لے نے امریکہ کے علاقہ کو وسعت دی اور اس کیلئے پیورٹو ریکو، گوام، فلیپائن اور ہوائی کو اپنے ساتھ ملالیا۔ ووڈ رو ولسن اور فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے تقریر کی آزادی، آزادی اظہار خیال کو دبایا اور غیرملکیوں و ناراض عناصر کو گرفتار کرنے انہیں ملک بدر کرنے ایگزیکٹیو آرڈرس کا استعمال کیا۔ براک اوباما نے امریکی کانگریس کی اجازت کے بغیر War Power Act 1973 کے تحت لیبیا پر جنگ مسلط کردی (اس طرح ایک خوشحال ملک تباہ و برباد ہوکر رہ گیا)۔ امریکہ کے 47 ویں صدر ڈونالڈ جے ٹرمپ کے علاوہ کوئی نہیں۔ آٹھ دہائیوں تک خرابیوں اور غلط مہم جوئی کے باوجود امریکہ آزادانہ جمہوری ملکوں کا رہنما اور عالمی نظام کا ضامن سمجھا جاتا رہا۔ امن ، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور انسانی حقوق کے مقصد کو آگے بڑھانے کیلئے متعدد عالمی ادارے بنائے گئے، تاہم مسٹر ٹرمپ کے تحت بمشکل آٹھ ہفتوں میں امریکہ نے عالمی ادارۂ صحت کو چھوڑ دیا اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) اور اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کو مالیہ کی فراہمی روک دینے کی دھمکی بھی دے دی۔ مسٹر ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کو بند کردیا ہے اور ساری دنیا میں درجنوں پروگراموں کو روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، نیٹو (NATO) سے بھی اپنا تعلق ختم کرسکتا ہے۔ ایلون مسک نے ہزاروں ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کردیا ہے اور اس بات کے پورے پورے امکانات پائے جاتے ہیں کہ محکمہ تعلیم کو بھی بند کردیا جائے گا۔ مسٹر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے دوست، دشمن بن رہے ہیں (مثال کے طور پر یوکرینی صدر زیلنسکی) اور دشمن دوست بن رہے ہیں (مثال کے طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن) مسٹر ٹرمپ نے دوسرے ملکوں کو دھمکیاں دینے کا طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ ٹرمپ مختلف ملکوں کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کررہے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ نے دوست (انڈیا) اور دشمن (چین) کے درمیان بھی کوئی امتیاز برقرار نہیں رکھا اور وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ معاہدات کئے جائیں، سودے کئے جائیں۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی میں سودے ہی کئے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے تو یوکرینی صدر زیلنسی کو وائٹ ہاؤز مدعو کیا لیکن جب وہ وائٹ ہاؤز پہنچے تب بڑی بے عزتی کے ساتھ وہاں سے نکال باہر کیا اور جب زیلنسکی معاہدہ پر دستخط کیلئے تیار ہوئے، انہیں دوبارہ وائٹ ہاؤز مدعو کیا اور کہا کہ زیلنسکی پر ان کی باتوں کا اثر ہوا تب کہیں جاکر زیلنسکی نے انتہائی قیمتی معدنیات کی نکاسی کیلئے امریکہ سے معاہدہ پر رضامندی ظاہر کی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ امریکی صدر اور نائب صدر نے اپنے مہمان زیلنسکی کی کس طرح توہین کی۔ یہاں تک کہ ان کے لباس کو بھی نشانہ بنایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ جیسا امریکی صدر اور خود کے Deal Maker کا اعتراف کرنے والے ٹرمپ کے ساتھ دنیا کدھر جائے گی اور اس کے ہندوستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے جبکہ دنیا کیلئے آمر حکمران اپنا ایک کلب بنائیں گے۔ مسٹر ٹرمپ، مسٹر پوٹن اور مسٹر ژی جن پنگ جیسے آمر حکمران علاقوں پر قبضہ کریں گے۔ امریکہ کی نظر پناما کنال، کینیڈا، گرین لینڈ اور غزہ پر ہے جبکہ روس پہلے ہی کریمیا ابقاضیہ اور جنوبی اوپٹسا کو خود میں ضم کرچکا ہے اور اب یوکرین کو بھی اپنے میں شامل کرنے کا خواہاں ہے۔ تیسری طرف چین، تبت اور ہانگ کانگ پر زبردستی قبضہ کئے ہوئے ہے۔ انڈیا، چین کیلئے بہت حساس حیثیت رکھتا ہے اور اس معاملے میں امریکہ اور نہ ہی روس، انڈیا کی مدد کریں گے۔ ہندوستان کو اب زبردستی امریکی ہتھیار خریدنے پڑیں گے۔ ہندوستان نے امریکہ سے زیادہ سے زیادہ مصنوعات اِمپورٹ کرنے کا وعدہ کیا۔ اب ہندوستان ، روس سے سستا تیل بھی نہیں خریدے گا۔ ٹرمپ نے ہندوستان کے خلاف محاصل کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جرمنی اور فرانسی، امریکہ کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ مسٹر مودی، ٹرمپ کو دوست سمجھتے ہیں لیکن وہ خود غرض اور اَنا پرست ہیں۔ اگر ٹرمپ عالمی معیشت کو تباہ بھی کردیں گے تب بھی انہیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ اب دنیا کو چار برسوں تک برداشت کرنا پڑے گا۔