شام میں فتح کیلئے ترکیہ کی فوج نے زبردست رول ادا کیا ، غزہ معاہدہ بھی جلد ہوجائے گا
واشنگٹن، 29 ستمبر (یو این آئی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردغان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں مسئلہ شام کا فاتح قرار دیا ہے ۔ وائٹ ہاؤس میں اردغان سے ملاقات کے حوالے پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ شام میں فتح کے ذمہ دار طیب اردغان ہیں جنہوں نے شام کا مسئلہ حل کیا اور انہی کی درخواست پر شام سے پابندیاں ہٹا دیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ طیب اردغان نے ایک زبردست فوج بنائی ہے وائٹ ہاؤس میں ان کی میزبانی کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے ترکیہ کے صدر ایف 35لڑاکا طیاروں کے حصول کے خواہش مند ہیں ان کے ساتھ پیٹریاٹ میزائل سسٹم اور ایف 35 پربات ہو گی۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے صدر روس یوکرین جنگ کے معاملے پر نیوٹرل ہیں اردغان کا خطے میں زبردست اثر و رسوخ ہے میں چاہتا ہوں ترکیہ روس سے تیل کی خریداری بند کر دے ۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیوٹن سے بہت مایوس ہوا وہ غلط لڑائی میں تقریباً 10لاکھ فوجی گنوا چکا ہے ، روس 2 ہفتوں کی تباہ کن بمباری کے باوجود مزید یوکرینی علاقوں پر قبضہ نہ کر سکا، کاغذی شیر کسی کو نہیں کہوں گا مگر روس لاکھوں ڈالر ہتھیاروں پر لگا کر بھی کچھ حاصل نہ کر سکا، صرف7 ہزار 818 افراد پچھلے ہفتے روس یوکرین جنگ میں مارے گئے یوکرین کے مقابلے میں روس کے زیادہ سپاہی اس جنگ میں مارے جا رہے ہیں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے پیوٹن کو روکنا ہو گا۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ہم غزہ جنگ بندی کے حوالے ایک معاہدہ کے قریب ہیں۔ وائٹ ہاوس میں ترک صدر رجب طیب اردغان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ پر خطے کے سربراہان سے اچھی ملاقات ہوئی ہم کسی قسم کے معاہدے کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کروں گا وہ جانتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں، غزہ جنگ میں بہت لوگ مر رہے ہیں سب اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، ہم تمام زندہ، مردہ اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک ساتھ واپسی چاہتے ہیں۔ مطابق ترک صدر رجب طیب اردغان کا کہنا تھا کہ میٹنگ کے نتائج سے خوش ہیں، ملاقات انتہائی مفید ثابت ہوئی ہے ۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی عرب اور مسلم رہنماؤں سے ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ اہم ملاقات میں غزہ سمیت مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
امریکی صدر کی مسلم ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات تقریباً 50 منٹ تک جاری رہی، ملاقات کے بعد رہنما بات چیت کیے بغیر ہی چلے گئے ۔