ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ انسانیت کی توہین : البانیز

   

واشنگٹن۔ 29 اکٹوبر (ایجنسیز) اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی اراضی فرانسسکا البانیز نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کو اپنی زندگی کی ’’بدترین توہین‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نہ قانونی حیثیت رکھتا ہے اور نہ اخلاقی جواز، بلکہ یہ عالمی انصاف اور انسانی اقدار کی توہین کے مترادف ہے۔برطانوی اخبار آئی پیپر (iPaper) کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں فرانسسکا البانیز نے کہا کہ انہیں موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ ان کے بقول، امن کا کوئی معاہدہ بین الاقوامی قوانین کی پامالی پر قائم نہیں ہو سکتا، اور ایسے لوگوں پر بھروسہ کرنا ممکن نہیں جو خود انصاف اور قانون کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی موجودگی برداشت نہیں کرتا۔ برسوں سے اسرائیلی حکومت کا طرزِ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فلسطینیوں کو محاصرے، بمباری اور معاشی بربادی کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ فرانسسکا البانیز کے مطابق، موجودہ معاہدے کو ’’جنگ بندی‘‘ کہنا دراصل ایک گمراہ کن دعویٰ ہے کیونکہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دو ریاستوں یا دو فوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے محصور اور بے بس عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ ان کے بقول، فلسطینی عوام 1948ء سے ظلم، نسلی امتیاز اور محاصرے کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، اور موجودہ صورتحال ایک نوآبادیاتی جبر کے تسلسل کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے کہ ایک ایسی ریاست، جو دو بین الاقوامی عدالتوں میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے، اسے فلسطینی عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔ انہوں نے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور انسانیت کے وقار پر حملہ قرار دیا۔فرانسسکا البانیز نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ انصاف، احتساب اور قانون کی بالادستی پر مبنی پائیدار امن کی راہ اختیار کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی امن معاہدے کی بنیاد انصاف اور قانون پر نہیں ہوگی تو وہ امن نہیں بلکہ مزید تشدد، ظلم اور تباہی کو جنم دے گا۔دوسری جانب 10 اکتوبر کو فلسطینی مزاحمت اور قابض اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوا۔ اس معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی قیدی رہا کیے گئے اور ہلاک شدگان کی نعشیں واپس کی گئیں۔تاہم غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے اس جنگ بندی کی 125 مرتبہ خلاف ورزی کی۔
ان حملوں کے نتیجے میں 94 فلسطینی شہید اور 344 زخمی ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی افواج نے 52 مرتبہ براہِ راست شہریوں کو نشانہ بنایا اور 9 بار رہائشی علاقوں میں زمینی دراندازی کی۔ یہ وہی ’’پیلا خط‘‘ ہے جو ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت انخلا کے پہلے مرحلے کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔غزہ کی وزارتِ صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 68 ہزار 531 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار 402 زخمی ہو چکے ہیں۔ وزارت نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل بمباری، محاصرے اور بنیادی سہولیات کی تباہی کے باعث انسانی صورتحال روز بروز سنگین تر ہو رہی ہے اور غزہ مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔