محمد ریاض احمد
امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں اکثر جو پیش قیاسیاں کی گئی تھیں اور جو سروے منظرِ عام پر آئے تھے ان میں واضح طور پر اس توقع کا اظہار کیا گیا تھا کہ ریپبلکن پارٹی کے 78 سالہ امیدوار اور سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو60 سالہ ہندوستانی نژاد کملا ہیریس کے مقابلہ شکست ہوگی لیکن میڈیا فلم انڈسٹری (فلمی شخصیتوں ) دانشوروں اور صنعت کاروں کی بھرپور تائید و حمایت کے باوجود کملا ہیریس کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا ، اور ٹرمپ کی اپنی متنازعہ شخصیت ان کی کامیابی میں حائل نہ ہوسکی جس سے یہ سوال پیدا ہونے لگے ہیں کہ امریکہ کی 248سالہ تاریخ میں آخر امریکی شہریوں نے ایک خاتون کو بطورِ صدر منتخب کیوں نہیں کیا جبکہ امریکی معاشرہ خود کو وسیع الذہن ‘ وسیع القلب اور آزاد خیال قرار دیتا ہے ، جہاں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں بھی ڈونالڈ ٹرمپ نے سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلاری کلنٹن کو شکست دی تھی اور صرف 8 سال میں انہوں نے دوسری خاتون امیدوار کملا ہیریس کو ہرایا۔ ٹرمپ نے 538 الیکٹورل ووٹ میں سے 295 اور کملا ہیریس نے 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے جبکہ ٹرمپ کو جملہ 7,35,41,319 (50.91 فیصد ) اور کملا ہیریس کو 6,87,13,751 ( 47.57 فیصد ) ووٹ ملے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ کو کملا ہیریس کے مقابلہ 3.34 فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ٹرمپ نے 50 میں سے 30 اور ہیریس نے 20 ریاستوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ رائے دہی کے آخری دن تک یہی کہا جارہا تھا کہ کملا ہیریس کو اپنے ریپبلکن حریف پر ایک سے لیکر 1.5 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ بہر حال ٹرمپ 4 سال کے توقف کے بعد وائٹ ہاؤز میں داخل ہورہے ہیں چونکہ امریکہ خود کو دنیا کا سُپر پاور ( باالفاظ دیگر عالمی پولیس والا ) قرار دیتا ہے ایسے میں ساری دنیا جس طرح امریکی صدارتی انتخابات پر بڑی دلچسپی کے ساتھ گہری نظر رکھے ہوئے تھی اسی طرح اب عالمی سطح پر کئی سوالات گردش کررہے ہیں۔
دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں میں فوری طور پر جو سوال اُبھرا وہ یہی تھا کہ آخر امریکی معاشرہ اپنے لاکھ دعوؤں کے باوجود کسی خاتون کو ملک کا صدر کیوں منتخب نہیں کرتا جبکہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں خواتین کو نہ صرف عہدۂ صدارت پر فائز کیا جاتا ہے بلکہ باوقار اور سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل عہدہ وزارت عظمیٰ پر متمکن کیا جاتا ہے۔ جہاں تک مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے انہوں نے بطور صدر اپنی پہلی میعاد کے دوران کافی ہلچل مچائی تھی، بعض مرتبہ تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہمارے عزت مآب وزیر اعظم کے لہجہ میں بات کررہے ہوں اور مذہب کے نام پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا بہترین فارمولہ حاصل کرلیا ہو۔ جہاں تک مسٹر ٹرمپ کا سوال ہے ان کے خلاف چار فوجداری مقدمات زیر دوراں ہیں جن میں سے ایک مقدمہ میں انہیں مجرم قرار دیا گیا ہے تاہم بحیثیت صدر اب وہ ان مقدمات کو ختم بھی کرسکتے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں یہ خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ ٹرمپ کو شکست ہوتی ہے تو ملک بھر میں ماضی کی طرح تشدد پھوٹ پڑسکتا ہے۔ حکام نے بھی اسی طرح کے خدشات ظاہر کئے تھے۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات دنیا کے ارب پتیوں میں سرفہرست ٹیسلا و ایکس ایپس کے بانی ایلون مسک کی ٹرمپ کو تائید رہی، ایک طرح سے انہوں نے بہت بڑا جوکھم مول لیا تھا تاہم ٹرمپ کی کامیابی نے ایلون مسک کو امریکی سیاست، امریکی تجارت اور امریکی سائینس و ٹکنالوجی کے شعبہ میں مرکزی حیثیت عطا کردی ہے۔
ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی ایلون مسک کی دولت میں 26.5 ارب ڈالرس کا اضافہ ہوا۔ بلوبرگ بلینرس انڈکس کے مطابق ایلون مسک کی دولت 290 ارب ڈالرس تک پہنچ گئی ہے۔ 4 نومبر کو مسک کی دولت 242.84 ارب ڈالرس تھی‘ 6 نومبر کو وہ بڑھ کر 288.53 ارب ڈالرس ہوگئی۔ خود ٹرمپ کے اثاثوں میں 24 گھنٹوں کے دوران ایک ارب ڈالرس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ( ٹرمپ 17 ارب 70 کروڑ ڈالرس مالیتی اثاثوں کے مالک ہیں ) ۔ ٹرمپ کی کامیابی میں پانسہ پلٹنے والی ریاستوں کا بھی اہم کردار رہا۔ ان 7 سوئنگ ریاستوں میں سے پنسلوانیہ، مشی گن، اسکانسن، شمالی کرولینا اور جارجیا میں انہیں زبرست کامیابی حاصل ہوئی جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو ٹرمپ کی کامیابی میں فلسطینیوں کی آہوں اور بددعاؤں کا اہم کردار رہا کیونکہ صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیریس کے انتظامیہ نے 7 اکٹوبر2023 کو شروع ہوئی اسرائیل ۔ فلسطین جنگ میں پوری طرح اسرائیل اور بنجامن نیتن یاہو کی حکومت کا ساتھ دیا۔
ایک برس سے جاری اس جنگ میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو نہ صرف17 ارب ڈالرس کی مالی امداد دی بلکہ اسرائیل نے غزہ پر جو تقریباً 1.5 لاکھ ٹن بم برسائے وہ بھی امریکہ سے بھیجے گئے تھے، اس کا مطلب یہی ہوا کہ انسانیت کو شرمسار کرنے والی اور درندگی کے تمام ریکارڈس توڑنے والی ان کاروائیوں میں امریکہ پوری طرح اسرائیل کا پارٹنر بنا رہا۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسرائیل کی درندگی اور اس کی وحشیانہ بمباری مزائیلوں کی شیطانی بارش اور زمینی حملوں میں اب تک 44 ہزار سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا، ایک لاکھ سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے، غزہ کی 23 لاکھ سے زائد آبادی میں سے 80 فیصد آبادی بے گھر ہوگئی ۔ اسرائیل نے فلسطینی اسپتالوں ، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں، مساجد، تاریخی آثار، گرجا گھروں کو زمین کے برابر کردیا، غزہ کو قبرستان بناکر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔44 ہزار شہداء میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے لیکر اس کی ذیلی تنظیموں کے سربراہوں نے تک یہ کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کا قتل عام کررہا ہے۔ اس کے باوجود جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کی مالی و فوجی امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔ حد تو یہ ہے کہ امریکی سرپرستی میں اسرائیل نے لبنان میں زبردست تباہی مچائی۔ زائد از3000 لبنانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ شام، عراقی علاقوں کے ساتھ ساتھ یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہوئے عالمی امن کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی، ان حملوں میں امریکہ بھی شامل رہا۔
بہرحال غزہ میں جس بیدردی سے درندگی کا مظاہرہ کیا گیا شیر خوار بچوں، حاملہ خواتین کو شہید کیا گیا اس کا خمیازہ بائیڈن‘ کملا ہیریس اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو بھگتنا پڑا۔ جہاں تک ٹرمپ کا سوال ہے اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ بائیڈن ہو یا ٹرمپ فلسطینیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ریپبلکن اور ڈیمو کریٹس ایک ہی خارجہ پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ اسرائیل کے جرائم کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے، انہیں اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں ہوتی کہ فلسطینی شیرخوار اور خواتین خون میں نہا جائیں‘ غزہ قبرستان میں تبدیل ہوجائے، فلسطینی ہاسپٹلس، اسکولس، کالجس و یونیورسٹیز زمین دوز کردیئے جائیں‘ انسانیت برہنہ کردی جائے، انہیں تو بس اپنے اور اسرائیل کے مفادات عزیز ہیں۔ اسرائیل کا ہر جرم ، ہر درندگی، اس کی شیطانیت‘ اس کے ہاتھوں ہورہے قتل‘ انسانیت کی تباہی امریکہ کیلئے حقیقت میں دیکھا جائے تو اسرائیل کی خوبیاں ہیں اور ان خوبیوں کی انجام دہی میں وہ ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اور امریکی حکومت وقفہ وقفہ سے بَرملا اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ وہی ڈونالڈ ٹرمپ ہیں جن کے یہودی داماد جیرڈ کشتر کی کوششوں کے نتیجہ میں ٹرمپ انتظامیہ نے مشرقی یروشلم کو غیر قانونی و ناجائز طریقوں سے اسرائیل کا دارالحکومت تک تسلیم کیا، اس پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے مشرقی یروشلم منتقل کردیا، اس کی افتتاحی تقریب میں ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے بطور خاص شرکت کی تھی حالانکہ ٹرمپ ہو یا بائیڈن ساری دنیا جانتی ہے کہ فلسطینی مشرقی یروشلم دارالحکومت کے ساتھ علحدہ ریاست فلسطین کا مطالبہ کررہے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک ان کے اس مطالبہ کی تائید بھی کرتے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ امریکہ ہو یا اسرائیل ان کی طاقت‘ دولت‘ ٹکنالوجی‘ عصری اسلحہ و گولہ بارود فلسطینیوں کے جذبۂ حریت جہاد و شہادت کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ فلسطینیوں کی آہیں اور ان کی بددعائیں یقینا ان طاقتوں کا تعاقب کرتی رہیں گی جو اسرائیل کی ناجائز مدد کرنے میں مصروف ہیں جن کے ہاتھ بھی فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ‘ جن کا شمار فلسطینیوں کے قاتلوں میں کیا جانے لگا ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں ٹرمپ کے امکانی اقدامات کی‘ آپ اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں‘ ان کیBody Language سے ان کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں تک دوسری مرتبہ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کا سوال ہے اس میعاد میں انہیں اور ریپبلکن پارٹی کو کئی ایک چیلنجس کا سامنا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے صرف ایک دن میں وہ اسرائیل۔ فلسطین جنگ اور روس۔ یوکرین جنگ بند کروادیں گے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی درندگی روک پائیں گے؟ انہیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ صیہونیوں کی بائیڈن انتظامیہ نے دل کھول کر مدد کی لیکن انتخابات میں ان لوگوں نے اپنے محسن سے ہی غداری کردی۔ ایران بھی ٹرمپ کیلئے ایک چیلنج بن کر اُبھرا ہے، اس نے اسرائیل اور اسرائیلی و امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کردیا، باہمی وقار و احترام کی بنیاد پر معاملت پر اس نے ہمیشہ زور دیا ہے جبکہ ٹرمپ اسے بدی کے مثلث کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ نئی جنگ نہیں کروں گا اور دوسری طرف ایران کے تئیں ان کا کیا موقف ہوتا ہے وہ بھی دیکھنے والی بات ہے۔ ٹرمپ کو تارکین وطن کے بحران کا بھی سامنا ہے خاص طور پر کیوبا اور وینزویلا کے ساتھ میکسیکو کے باشندوں کی ایک کثیر تعداد امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے مقیم ہے۔ انہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ سے نکال باہر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی سے لاطینی امریکی پریشان ہیں۔ کولمبیا، بولیوہا، چلی، برازیل، کیوبا اور وینزویلا فکرمند ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی ٹرمپ کو اپنا قریبی دوست اور ٹرمپ انہیں اچھا دوست قرار دیتے ہیں لیکن ہندوستان کیلئے فطری بات یہ ہے کہ امپورٹیڈ گڈس پرTARIFFS بڑھانے سے صرف چین‘ برازیل کو ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہندوستان کی آئی ٹی صنعت بھی اس کی زد میں آئے گی۔ ٹرمپ کیلئے ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان چیلنجس کا مقابلہ کس طرح کرپاتے ہیں۔