ٹرمپ کی ہندوستان سے دوری پاکستان سے قربت حیرت ہے ؟

   

رام چندر گوہا
ہندوستان اور پاکستان کی ایک ساتھ پیدائش ہوئی ( ہم یہاں دونوں ملکوں کی آزادی کی بات کررہے ہیں) دونوں ایک ہی سلطنت کے دو ٹکڑے یا دو حصے ہیں ۔ دونوں ملکوں کو وراثت میں مشترکہ سیاسی ، اقتصادی اور ثقافت ملی ۔ اس کے باوجود ان کے وجود کے تقریباً 80 برسوں میں ان کی قسمت واضح طور پر بدل گئی ہے ، خاص طور پر ہندوستانی معیشت نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے ، اس کی فی کس اوسط آمدنی پاکستان سے تقریباً دوگنی ہے ۔ ہندوستان ان آٹھ دہوں کے دوران بالکل متحد رہا ، اس کے برعکس پاکستان ٹوٹ پھوٹ باالفاظ دیگر تقسیم کا شکار ہوگیا اور 1971ء میں اسے ا پنے کثیرآبادی کے حامل مشرقی علاقہ سے محروم ہونا پڑا ۔ آج اس حصہ کو ایک مقتدر اعلیٰ ملک بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ہندوستان کی بہت سے بڑی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہیکہ یہاں باقاعدہ اور باضابطہ غیرجانبدارانہ اور شفاف طور پر عام انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے ۔ اس معاملہ میں پاکستان کا حال متضاد ہے جہاں انتخابات کی تواریخ یا شیڈول اور نتائج کا فیصلہ فوجی جرنیل کرتے ہیں ۔
اب یہاں یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستان کی کارکردگی اور مظاہرہ پاکستان کے مقابل کیوں بہتر رہا ہے ۔ اپنی بالادستی پر مصر ہندو تنظیموں اور ان کے حامی یہ دعویٰ کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہ اسلام پر ان کے عقیدہ کی باطنی اور ضروری برتری کی وجہ سے ہے لیکن حقیقیت میں دیکھا جائے تو بات اس کے برعکس ہے ۔ ہندوستان نے آزادی کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں میں جس تیزی سے ترقی کی وہ اصل ہمارے ملک کے بانیوںکی مرہون منت ہیں جن میں مرد اور خواتین دونوں کی ناقابل فراموش خدمات کا اہم کردار ہے ۔ ان لوگوں نے خود کو ہمیشہ مذہبی تعصب و جانبداری اور فتح پسندی جیسی برائیوں سے دور رکھا ، کیونکہ یہ دو ایسی برائیاں ہیں جو کسی ملک میں پھیل جائیں تو وہ ترقی کی بجائے تباہی و بربادی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوجاتاہے ۔ اس وجہ سے ہمارا ملک پاکستان سے بالکل مختلف ثابت ہوا ۔ دستور ہند نے ایک شخص ایک ووٹ پر مبنی سیاسی نظام کے حق میں بادشاہت کے قدیم ہندو طرز سیاست یا نمونوں کو مسترد کردیا ۔ ہمارے ملک کے دستور نے صنف اور ذات پات کے روایتی درجہ بندی کو بھی رد کردیا اور اس نے عقیدہ / مذہب کو ریاست کیساتھ ملانے سے بھی صاف طور پر انکار کردیا ، حالانکہ پاکستان مذہب اور سیاست کو ملانے کے عمل میں تھا ، آخر میں مابعد آزادی ہمارے سیاسی رہنماؤں نے عقلی سوچ کے فروغ دینے اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کی خاطر جدید سائنس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنے ملک کیلئے سائنس و ٹکنالوجی اپنانے کو ترجیح دی ( یہاں تک کہ اگر محمد علی جناح ، پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرح ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہتے تب بھی اس کا امکان نہیں تھا کہ پاکستان میں آئی آئی ٹیز یا ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ جیسے باوقار علمی مراکز ہوتے ) ، جمہوریت ، تکثریت اور فکری کھلی ذہنیت کی پروان چڑھنے والی اقدار کو ہمیشہ اس طرح برقرار نہیں رکھا گیا جیسا کہ برقرار رکھنا چاہتے تھے ۔ 1975 – 77 کی ایمرجنسی کے دوران جمہوری آزادیوں کو التواء میں رکھا گیا ، کشمیر اور شمال مشرق میں ریاستی تشدد کا بہت زیادہ مشاہدہ کیا گیا ، اقلیتو ں پر وقفہ وقفہ سے حملے ہوتے رہے ، غیر ملکیوں کو بھی وقتاً فوقتاً پُرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا گیا پھر بھی یہ اقدار اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کافی حد تک مضبوط و مستحکم رہے کہ جب 1991 میں ایک مرتبہ لائنس پرمٹ کوٹہ راج کا خاتمہ ہوا وہ 25برسوں تک متاثرکن معاشی نمو کا باعث بنا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہندوستان نے 1991 کے بعد سے ڈھائی دہوں تک متاثرکن معاشی ترقی کی ، اگر ہندوستان علاقائی طور پرعدم اتحاد اور بے چینی کا شکار ہوتا ، آمرانہ خطوط پر یہاں کی حکمرانی ہوتی یعنی آمرانہ طرز حکمرانی کے شکنجہ میں ہوتا، ریاست مذہبی ہوتی تو پھر اس مختصر سے عرصہ میں اس قدر غیر معمولی ترقی سے محروم رہتا ۔ دوسری طرف پاکستان نے مابعد سردجنگ اسے دستیاب بہترین ملک سنہری معاشی مواقعوں سے اچھی طرح فائدہ نہ اٹھا سکا کیونکہ وہاں کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی بجائے فوج بہت زیادہ اہمیت حاصل کر گئی اور زندگی کے ہر شعبہ میں مذہبی جنون پسندی داخل ہوگئی تھی اور پاکستان کو آج بھی اس مذہبی جنون پسند اُسی مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تشدد کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے اور جہاں تک عالمی سطح پر پاکستان کی خراب شبیہ کا سوال ہے ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں پھیلانے اور دہشت گردانہ واقعات کیلئے فنڈنگ / مالیہ فراہم کرنے کے نتیجہ میں عالمی سطح پر اس کی شبیہ کافی متاثر ہوئی ، خاص طور پر اس نے اسامہ بن لادن کی جو میزبانی کی ہے ، ساتھ ہی جوہری ہتھیار پھیلانے سے متعلق اس کے کردار نے عالمی سطح پر اس کی شبیہ کو شدید متاثر کیا ہے ۔ اگرچہ دونوں ملکوں نے مختلف راہوں کو اپنایا لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب عالمی تصور میں ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں ایک ہی سانس میں بات کی جاتی تھی ، اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ دونوں ملک کشمیر کے مسئلہ پر تین جنگیں لڑچکے ہیں لیکن 2000دہائی کے اوائل تک ہندوستان اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اتنا آگے نکل گیا تھا کہ شائد ہی کسی نے ہند و پاک سوال پر بات کی ہو ۔ ہندوستان ، پاکستان سے بالکل مختلف لگنے لگا اور اس نے خود کو پاکستان سے De-Hyphenated کردیا۔
یہاں تک کہ ہندوستان کی بجائے چین کے ساتھ جوڑے جانے کی بات کی گئی جیسا کہ چنڈیا کے خیال میں ہے جبکہ چین کا معاشی عروج زیادہ نمایاں تھا ، ہندوستان کی جمہوری اور تکثیری شناخت نے اسے یورپ اور شمالی امریکہ اور جاپان میں بھی حکومتوں ، سرمایہ کاروں اور عام شہریوں کیلئے ایک پُرکشش متبادل بنادیا ۔ تاہم اب پہلگام میں دہشت گردانہ لہر اور ہماری حکومت کے ردعمل کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ جیسے لیڈران ہندوستان اور پاکستان کو دو یکساں عظیم ملکوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان و پاکستان کے بارے میں جب بھی کچھ کہا دونوں ملکوں کو یکساں مقام دیا حالانکہ ہر لحاظ سے ہندوستان اور پاکستان میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے ۔
ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہیکہ ہندوستان اور پاکستان دو عظیم قومیں ہیں اور جن کے ساتھ ان ( ٹرمپ) کے اچھے تعلقات ہیں اور دونوں ملکوں کو انہوںنے جنگ بندی پر راضی کروایا ۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان اور پاکستان کو یکساں مقام دے رہے ہیں ، ان کے خیال میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے تئیں بہتر سلوک روا رکھنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو امریکہ ہندوستان پاکستان دونوں سے تجارتی معاہدات کرے گا ۔ زخم پر نمک چھڑکتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے ہزار سالہ قدیم مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کرنے کی بھی پیشکش کرڈالی ( حالانکہ کشمیر کوئی ہزار سالہ قدیم مسئلہ نہیں ہے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان عقلمندی اور دیانتداری کیساتھ امن کے بروکر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ کب کیا کہہ دیں ، کیا کردیں نہیں کہا جاسکتا ۔ ان کے بارے میں کوئی پیش قیاسی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ ایک غیر متوقع کردار ہے جو سب سے بڑھ کر خود نمائی پر مبنی ہے ۔ بہرحال ایک بات ضرور ہیکہ ٹرمپ دنیا کے سب سے متمول اور سب سے طاقتور ملک کے صدر ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہمارے ملک کے اہم اقتصادی اور سیاسی تعلقات ہیں لہذا ہمیں امریکی صدر کی حرکتوں اور ان کے اقدامات کو بڑی سنجیدگی سے لینا چاہیئے اور نہ ہی بین الاقوامی میڈیا کے معتبر گوشے میںاس خوفناک درخواست کو یکسر نظرانداز کرنی چاہیئے ۔
ہفتہ 10مئی کو جب ہندوستان اور پاکستان بڑی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرونس برسا رہے تھے تب فینانشیل ٹائمز نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری تنازعہ کے پس منظر پر مبنی رپورٹ شائع کی جس کی سرخی کچھ اس طرح تھی ’’ دو طاقتور مذہبی شخصیتوں کا تصادم ‘‘ اس سرخی کے ذریعہ دراصل پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر اور نریندر مودی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔ ایک خود کو کٹر مسلم کے طور پر پیش کرتا ہے اور دوسرا خود کو کٹر ہندو کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اور وہ بھی اپنے اپنے ملکوں کی جانب سے یہ خود کو پیش کرتے ہیں ۔ اس اخبار میں ایک ایسا مضمون شائع کیا گیا جس میں چین کے حمایت یافتہ پاکستان کے تئیں نریندر مودی کی عداوت کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ امریکہ ایک ایسے ملک ( پاکستان) کو جو دہشت گردی کو برآمد کرتا ہے ایک ایسے ملک ( ہندوستان) کو یکساں قرار دیتا ہے جو دنیا کی سرفہرست کمپنیوں کے چیف ایکزیکٹیو آفیسرس پیدا کرتا ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ ہندوستان اس کے شہریوں کے رہنے کیلئے بہتر مقام ہے اس کے برعکس پاکستان کو اپنے شہریوں کے رہنے کا بہتر مقام ہرگز نہیں کہا جاسکتا، یہ ہمیں خود سے پوچھنا چاہیئے کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے حالیہ برسوں میں پیچھے ہٹ گئے ہوں ؟ ، کیا سابق امریکی صدور بش اور اوباما یا بائیڈن نے کبھی ہندوستان کو پاکستان کیساتھ ملایا ہوگا ؟ یا کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہوگی ؟ کیا فینانشیل ٹائم نے کبھی منموہن سنگھ ، نرسمہا راؤ ، راجیو گاندھی ، دیوے گوڑا کے دور حتی کہ اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیا ہوگا۔