ٹرمپ کے سامنےمودی خاموش کیوں رہے؟

   

دو اپریل 2025 ء اور اس کے بعد کے ایام میں ہم جان لیں گے کہ کیا دنیا جدید Pied Piper کی دھن پر رقص کرے گی۔ اگر امریکہ دوسرے نشانہ بنائے جانے والے ملکوں سے درآمد کردہ اشیاء پر تعزیری محاصل نافذ کرتا ہے تو اس کا وہ اقدام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اُصول و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ ساتھ ہی ہمہ جہتی اور باہمی تجارتی معاہدات، بین الاقوامی قوانین اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا بھی وہ مرتکب ہوگا لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ یا کسی اور ملک کے قانون کی کوئی پرواہ نہیں۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ خود کیلئے ایک قانون ہیں۔ امریکی صدر نے ان ملکوں کی نشاندہی کی ہے جسے ’’ٹارگٹ‘‘ ممالک کہا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی شکایت ہے کہ ٹارگٹ ممالک امریکی اشیاء پر بہت زیادہ محاصل عائد کرتے ہیں اور امریکہ جواب میں اُن ملکوں سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر زیادہ سے زیادہ محاصل عائد کرنے کا اعلان کرچکا ہے اور انھیں ’’ٹارگٹ ممالک‘‘ کا نام دیا ہے۔ ہندوستان بھی ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تیار کردہ ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ٹرمپ نے 20 جنوری کو صدارتی عہدہ کا جائزہ حاصل کرنے کے بعد انتہائی عجیب و غریب انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ان ملکوں پر جوابی محاصل نافذ کریں گے جن ملکوں نے امریکی مصنوعات پر حد سے زیادہ محاصل عائد کر رکھے ہیں۔ واضح رہے کہ ٹیرف (محاصل) ایک ایسی رکاوٹ ہے جس کا مقصد غیر ملکی مصنوعات کو مقامی (ملکی مارکٹ) مارکٹ میں داخل ہونے اور ملکی مصنوعات سے مسابقت کرنے سے روکنا ہے۔ ٹیرف (یعنی کسٹم ڈیوٹی) کے علاوہ دیگر ڈیوٹیز بھی شامل ہیں جیسے ANTI DUMPING DUTY اور سیو گارڈ ڈیوٹی وغیرہ اور ان ڈیوٹیز کا خاص حالات میں نفاذ کیا جاتا ہے لیکن یہ مشق ایک گھریلو یا ڈومیسٹک مشق ہے اور انھیں صرف اور صرف ملکی عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور عام طور پر غیر ملکی برآمد کنندہ کے خلاف، ملکی صنعت کی طرف ان کا جھکاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معیار کے پیمانوں، پیاکیجنگ کے اُصولوں اور ماحولیاتی رہنمایانہ خطوط وغیرہ کے تحت نان ٹیرف رکاوٹیں موجود ہیں اور اس ذاتی مفاد کو تحفظ تجارتی کا نام دیا گیا ہے۔ تحفظ تجارتی خود کفالت یا خود انحصاری حاصل کرنے کے ہتھیار کا حصہ تھی لیکن حب الوطنی کے لئے تحفظ تجارتی کو اُلجھایا گیا۔ جدید معاشی نظریہ اور تجرباتی شواہد نے خود کفالت کے نظریہ کو مسترد کردیا ہے۔ خود کفالت ایک افسانہ ہے۔ کوئی بھی ملک وہ تمام اشیاء اور خدمات پیدا نہیں کرسکتا جو اس کے عوام چاہیں اور استعمال کریں۔ ایک تحفظ تجارتی پسند کرنے والا ملک کم ترقی۔ کم سرمایہ کاری، ناقص اشیاء، محدود انتخاب اور ناقص کسٹمز سرویس کا شکار ہوگا۔ گزشتہ 50 برسوں کی تاریخ نے حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ ایک کھلی معیشت اور آزاد تجارت، تحفظ تجارتی یا تحفظ پسندی نہیں ہے بلکہ اقتصادی ترقی کو فروغ دیتی ہے اور جہاں تک دنیا کے امیر ترین ممالک کی تعریف و توضیح کا سوال ہے امیر ترین ممالک وہ ممالک ہیں جو تجارت اور مسابقت کے لئے کھلے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ہندوستان نے زائداز 40 برسوں تک تحفظ تجارتی کو اپنایا۔ درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں جس کے نتیجہ میں برآمدات بھی محدود ہوگئیں۔ ہمارے پاس وزارت تجارت میں ایک ڈیویژن تھا اور ایک اتھاریٹی کے تحت عہدیداروں کی ایک فوج تھی جسے درآمدات اور برآمدات کا چیف کنٹرولر نامزد کیا گیا تھا۔ کسی نے یہ واضح سوال نہیں اُٹھایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ درآمدات کے چیف کنٹرولر کیوں ہیں لیکن براہ کرم وضاحت کریں کہ آپ برآمدات کے چیف کنٹرولر کیوں ہیں؟ یہ بھی ایک حیرت کی بات ہے کہ اسے ہم ظالمانہ مذاق کہہ سکتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں اکسپورٹس پر کنٹرول کرنے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں جو بُری طرح بیرونی زرمبادلہ میں اضافہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1991 ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ ہمارے ملک کے وزیر فینانس بنائے گئے۔ اُنھوں نے ایسی اقتصادی پالیسیاں اختیار کی جنھوں نے تحفظ تجارتی کو ختم کرنے اور معیشت کو کھولنے کی راہ ہموار کی۔ 1991-92 ء میں نئی بیرونی تجارتی پالیسی نے اس مہلک کتاب سرخ کو پھاڑ کر رکھ دیا اور یہ اعلان کیاکہ ہندوستان آزادانہ تجارت کے لئے کھلا ہے۔ تحفظ تجارتی باضابطہ طور پر ترک کردیا۔ پابندی والے اُصول و ضوابط کو ختم کردیا گیا۔ محصولات (ٹیکسوں) میں بتدریج کمی کی گئی اور ہندوستانی صنعت کاروں کو مسابقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پالیسیوں کے نتیجہ میں کھلی معیشت وجود میں آئی جس کے قلیل اور طویل مدتی فوائد بہت زیادہ تھے جس کے ثمرات آج بھی دیکھے جارہے ہیں اور جب 2014 ء میں مسٹر نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت تشکیل پائی ہندوستان فراخدلانہ معاشی پالیسی کے دور سے پہلے کے دور میں واپس چلا گیا اور تحفظ تجارتی کو دوبارہ اپنالیا۔ خود انحصاری کو ایک پُرکشش و خصوصی نام ’’آتما نربھر‘‘ دے دیا گیا اور حکومت یہ سمجھنے میں ناکام ہوگئی کہ دنیا بدل چکی ہے اور دنیا کے ملکوں نے اپنی ترجیحات بھی تبدیل کرلئے ہیں اور ایک سپلائی چین کی ایجاد ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پراڈکٹ جیسے ایک موبائیل فون صرف ایک ملک میں ہی نہیں بنایا گیا بلکہ کئی ملکوں میں بنایا گیا اس کے برعکس بعض مصنوعات خالص میڈ اِن جرمنی اور میڈ اِن جاپان ہوا کرتی تھیں اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم اب دنیا میں جس تجارتی پالیسی کو بہت زیادہ فروغ دیا گیا اس کے مطابق کئی مصنوعات کو Made in the World کہا جاسکتا ہے۔ آتما نربھر ناقص یا رد کردہ اُصول و ضوابط کی بحالی، لیئسنس سسٹم، اجازت ناموں، پابندیوں اور سب سے زیادہ اہم TARIFFS کا باعث بن گئی۔ عالمی تنظیم تجارت کے مطابق ہندوستان کا سادہ اوسط Final Bound TARIFF ، 50-8 فیصد ہے معہ ایم ایف این کے ہے۔ جبکہ ٹریڈ ویٹسڈ ایوریج ٹاریف (TWAT) 12.0 فیصد ہے۔ ان دو نمبرات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہندوستان کا تحفظ تجارتی / تحفظ پسندی کا حامل ہے۔ ویسے بھی دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان کے بھی اپنے جائز مفادات ہیں اور ان مفادات کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر زراعت، سمکیات، کانکنی، ہینڈلومس، ہنڈی کرافٹس اور روایتی پیشے مفادات کے تحفظ کے متقاضی ہے۔ یہ ایسے پیشے اور شعبے ہیں جو تحفظ کے مستحق ہیں کیونکہ لاکھوں کروڑوں زندگیاں ان پر منحصر ہیں اور دنیا ان جائز مفادات کے تئیں عدم احساس نہیں رکھتی۔ دنیا میں مذکورہ شعبوں کے بارے میں احساس پایا جاتا ہے۔ بہرحال صدر ٹرمپ نے اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کرنے کے بعد پہلا تیر پھینکا اور انھوں نے سب سے پہلے المونیم اور اسٹیل (فولاد) کی درآمدات پر محاصل عائد کرنا شروع کیا پھر اپنا بیان واپس لیا ساتھ ہی محاصل عائد کرنے کی ایک نئی تاریخ مقرر کی۔ 26 مارچ کو انھوں نے آٹو موبائیلس (کاروں) اور آٹو پارٹس پر بہت زیادہ محاصل عائد کئے۔ میرا ماننا ہے کہ مسٹر ٹرمپ ایک اسنائپر کی طرح کام کریں گے۔ ایک وقت پر ایک نشانہ لگاکر گولی چلائیں گے اور اس نشانہ کو ڈھیر کردیں گے۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ہندوستان بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی مصنوعات پر ٹرمپ نے جوابی محاصل عائد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم اس بارے میں ہندوستان کا ردعمل اب تک خفیہ اور مبہم ہے۔ حکومت نے امپورٹیڈ مصنوعات پر عائد کئے جانے والے محاصل میں بجٹ برائے سال 2025-26 ء میں تخفیف کی ہے۔ اس کے باوجود مسٹر ٹرمپ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ مسٹر مودی نے کافی چاپلوسی کی اس کے باوجود وہ ٹرمپ کو مطمئن نہیں کرسکے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی جس انداز میں ٹرمپ کے سامنے جھک رہے ہیں کیا وہ اپنی اس حکمت عملی کے ذریعہ فاتح ہوں گے یا نہیں۔