ٹرمپ کے عجیب و غریب فیصلے، مودی نظر انداز

   

چار برسوں میں امریکہ کا کیا ہوگا؟

محمد ریاض احمد

ڈونالڈ ٹرمپ نے بالآخر دوسری مرتبہ امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لے لیا۔ انہوں نے عہدہ صدارت کا حلف لینے کے ساتھ ہی وہی فیصلے کئے جن کی توقع کی جارہی تھی جس انداز میں ٹرمپ نے جوبائیڈن انتظامیہ میں جاری کردہ 78 صدارتی حکمناموں کو منسوخ کرتے ہوئے بے شمار نئے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کئے ہیں اس سے تو یہی اشارے مل رہے ہیں کہ آئندہ چار برس امریکہ کے لیے ہنگامہ خیز رہیں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی میعاد اور سابق صدر جوبائیڈن انتظامیہ کے برعکس اس مرتبہ امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یا کام کررہے ہندوستانی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ہم آگے کی سطور میں آپ کو بتائیں گے کہ ہندوستانی کیسے متاثر ہوں گے؟ پہلے ڈونالڈ ٹرمپ کے اس سب سے بڑے فیصلہ اور حکم کی بات کرتے ہیں جس کے ذریعہ انہوں نے 4 سال قبل ان کی شکست کے بعد کیپٹل ہل پر حملہ کرنے وہاں توڑ پھوڑ مچانے والے زائد از 1600 غنڈوں کو معافی دے دی۔ یہ ایسے انتہاپسند تھے جو سزایافتہ تھے یا پھر ان پر فرد جرم عائد کیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے 2020ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے امریکی قانون سازا سمبلی پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ مچائی تھی۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ پر سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کے فیصلہ کو اشتعال انگیز توہین سے تعبیر کیا۔بحیثیت 47 ویں امریکی صدر ان کا کہنا تھا کہ ان کا انتظامیہ ’’ہر مسئلہ ہر چیلنج سے طاقت، قوت اور وقار‘‘ سے نمٹے گا۔ انہوں نے ٹک ٹاک پر پابندی کا نفاذ بھی اگلے 75 دنوں کے لیے موخر کردیا۔ ٹرمپ کے بڑے اور عالمی سطح پر اثرانداز ہونے والے فیصلوں میں غیر قانونی تارکین وطن کو جنہیں نئے امریکی صدر ’’درانداز‘‘ کا نام دیتے ہیں امریکہ سے نکال باہر کرتا ہے۔ امریکی صدرنے ایک اور متنازعہ فیصلہ امریکی سرزمین پر پیدائش کے ساتھ ہی امریکی شہریت عطا کرنے والے 150 سال قدیم قانون/حق کو ختم کردیا۔ یہ اچھی بات ہوئی کہ ایک امریکی وفاقی جج نے پیدائش کے ساتھ ہی امریکی شہریت عطا کرنے والے قانون کی برخواستگی سے متعلق ٹرمپ کے حکم پر عارضی روک لگادی ہے ورنہ 30 یوم بعد نئے صدر کے نئے حکم پر عمل آوری کے امکانات کو دیکھتے ہوئے امریکہ میں اپنے شوہروں کے ساتھ مقیم ہندوستانی اور دوسرے ملکوں کی حاملہ خواتین نے قبل از وقت آپریشن کے ذریعہ زچگیاں کروانے کا جوکھم لینے لگی تھی۔ جہاں تک ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹیو آرڈرس کا سوال ہے اس سے امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے ہندوستانی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ امریکہ میں ہندوستانی مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت سے لے کر پیشہ طب و تجارت میں ہندوستانی چھائے ہوئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف شعبوں سے وابستہ ایسے مرد و خواتین جن کی سالانہ تنخواہ ایک ملین ڈالرس سے زیادہ ہے ان میں ہندوستانیوں کی اکثریت ہے اور اس اکثریت میں 25 فیصد خواتین ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو مقامی امریکی ہیں صلاحیتوں کے معاملہ میں ان سے بالاترہندوستانی ہیں۔ ایک اور خاص بات آپ کو بتادیں کہ H1B ویزا پالیسی 1990ء میں شروع کی گئی جو H-1B ویزے جاری کئے جاتے ہیں ان میں 75 فیصد ہندوستانیوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2023ء میں جو H1B ویزے جاری کئے گئے ان کی تعداد 386000 تھی ان میں سے تین چوتھائی ویزے ہندوستانیوں کے حصہ میں آئے۔ اوپن ڈور کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی سال 2023-24 کے دوران امریکہ میں 210 ملکوں کے 1126690 طلبہ تھے یہ تعداد تعلیمی سال2022-23 سے 7 فیصد زیادہ ہے۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی طلبہ میں ہندوستانی طلبہ کی تعداد 331602 اور چینی طلبہ کی تعداد 277398 یعنی دونوں ملکوں کے طلبہ کی تعداد جملہ طلبہ کا 54 فیصد حصہ بنتی ہے۔ اسی اچھے دوست نے مودی جی کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس تقریب میں وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے شرکت کی۔ اس بارے میں حکومت ہند کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنی ہوگی کہ آج ٹرمپ کے سامنے ہماری اہمیت کیوں گھٹ گئی ہے اور وہ ہندوستان کو Tarrif King and Trade Abuser کیوںکہنے لگے۔ یہاں تک کہ انہوں نے برکس ممالک (جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کے بشمول 10 ممالک شامل ہیں) کو بھی ڈالر کے متبادل کرنسی کے خلاف انتباہ نہیں بلکہ دھمکایا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان امریکہ کا 9 واں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ مالی سال 2023-24 میں ہند۔امریکہ Trade Surplus 30 ارب ڈالرس سے زیادہ ہے۔ ایک اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان امریکہ کی زیر قیادت QUAD (اس اتحاد میں آسٹریلیا، انڈیا جاپان اور امریکہ شامل ہیں) کا بھی حصہ ہے اور دنیا کا سب سے بڑا کنزیومر مارکٹ بھی۔ ایسے میں ٹرمپ ہندوستان اور امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی اہمیت نہیں گھٹاسکتے۔ ٹرمپ نے نریندر مودی کو مدعو نہ کرکے اور تارکین وطن کے خلاف کارروائیوں اور دوسرے احکامات جاری کرتے ہوئے ایک طرح سے ہماری توہین کی ہے۔ اس سے یہ تو ظاہر ہوگیا ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے وزیراعظم کی کیا اہمیت باقی رہ گئی۔ حالانکہ مودی نے ایک ایسے وقت جبکہ دنیا کورونا کی لپیٹ میں تھی گجرات میں ٹرمپ کا استقبال کرتے ہوئے نمستے ٹرمپ مہم چلائی تھی۔ یہاں تک کہ 2020ء کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کے ایک کارکن کی طرح ’’اب کی بار ٹرمپ سرکاری‘‘ نعرہ لگایا تھا۔ ٹرمپ نے مودی کے اس جذبہ خیرسگالی اور نعرے کا بھی خیال نہیں رکھا۔ ہمارے ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ مودی جی کی شخصیت آنجہانی اندرا گاندھی جیسی کرشماتی و جادوئی نہیں عالمی سطح پر اندرا گاندھی کا جو مقام و مرتبہ تھا مودی جی اس سے محروم ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دس گیارہ برسوں سے ہندوستان کو ایک طرح سے مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ہندو مسلم ہندو مسلم کیا جارہا ہے، جانوروں کے احترام کے نام پر انسانوں اور انسانیت کو رسوا کیا جارہا ہے۔ تحفظ گائو کے نام پر مسلمانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ مختلف بہانوں سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ منی پور میں جو کچھ ہوا ساری دنیا جانتی ہے کہ وہاں خواتین کی عصمت کس طرح پامال کی گئیں ان کی برہنہ پریڈ کروائی گئی۔ گرجا گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔ لیکن آج تک وہاں کی بی جے پی حکومت کو برطرف کیا گیا اور نہ ہی مودی جی نے اس متاثرہ ریاست کا دورہ کرنا گوارا کیا۔ مودی جی کی حکومت نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی خاطر مذہب پر مبنی شہریت ترمیمی قانون منظور کیا ۔ اس میں صرف مسلمانوں کو شامل نہیں کیا اور جب امریکہ میں ٹرمپ ایسے ہی قانون پر عمل کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو سب پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ ٹرمپ لاکھ فیصلے کرلیں لیکن وہاں کی عدالتیں ججس آستھا کی بنیاد پر فیصلے نہیں دیتے، حکومت کا دبائو قبول نہیں کرتے، قانون ساز مذہب پر مبنی قوانین نہیں بناتے۔ آپ کو بتادیں کہ گزشتہ ایک سال میں 1100 ہندوستانیوں کو امریکہ سے نکالا گیا جبکہ مودی حکومت نے اب ایسے 18000 ہندوستانیوں کو واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو امریکہ میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ یہاں ایک اور بات بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مساجد کے نیچے منادر تلاش کی جارہی ہیں، درگاہوں پر دعوے کئے جارہے ہیں، ججس جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زہر اگل رہے ہیں۔ پھر مودی کے حمایتی کہتے ہیں کہ یہ امرت کال ہے۔ اگر یہ امرت کال ہے تو پھر 2014ء سے اب تک 1591512 ہندوستانیوں نے اپنی ہندوستانی شہریت کیوں ترک کی۔ بہرحال ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں فرقہ پرست درندوں پر قابوپایا جائے، حکومتوں اس کے اداروں اور عدالتوں پر عوامی بھروسہ بحال کیا جائے تو ہم امریکہ کے سامنے سر جھکاکر نہیں بلکہ سینہ تان کر کہے سکتے ہیں۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘۔