ایم کے وینو
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے عجیب و غریب فیصلوں نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں ہلچل مچادی ہے اور عالمی سطح پر تجارت کے شدید متاثر ہونے کے پورے پورے امکانات پائے جاتے ہیں اور اقتصادی سرگرمیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہندوستانی معیشت بھی ٹرمپ کے فیصلوں سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کی زد میں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج کی تاریخ میں امریکہ سب سے بڑی معیشت ہے، اس کی جی ڈی پی سب سے زیادہ ہے۔ 28 کھرب ڈالرس، مگر امریکہ کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ چین اور دوسرے ممالک کی جن میں انڈیا بھی شامل ہے گزشتہ 25 برسوں میں قومی مجموعی پیداوار بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک بڑی غلطی جو مودی حکومت کررہی ہے یہ ہے کہ وہ جو امریکہ کہہ رہا ہے وہ چپ چاپ سن رہی ہے اور اس کے جواب میں کچھ کہہ نہیں کہہ رہی ہے۔ یہ عالمی تجارت جتنی ہوتی ہے وہ ٹرمپ کے فیصلوں سے سکڑ جائے گی اور عالمی جی ڈی پی میں بھی گراوٹ آئے گی اور یہ دونوں باتیں ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ امریکی فیڈرل بینک کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں۔ بینک کے صدرنشین نے یہ کہہ دیا کہ اس کا بہت زیادہ اثر پڑے گا خاص طور پر جی ڈی پی پر اثر ہوگا۔ پیداوار پر اثر پڑے گا اور تجارت پر بھی اثر پڑے گا۔ ٹرمپ صاحب نے ڈبلیو ٹی او کو بالکل کوڑے دان میں پھینک دیا ہے، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ زرعی شعبہ میں سرگرمیاں بھی کم کیجئے، اگر مودی جی یہ مان لیں یعنی زرعی شعبہ والی بات مان لیں تو کسانوں کو مزید جھٹکہ لگے گا۔ ہمارے ملک کے کسان ویسے بھی پچھلے دس برسوں سے پریشان ہیں، احتجاج کررہے ہیں، انھیں صحیح ایم ایس پی نہیں مل پارہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو درآمدات پر حد سے زیادہ محاصل یا ٹیرف عائد کرکے ٹرمپ نے عالمی معیشت میں سونامی برپا کردی ہے۔ یہ بنیادی منطق ہے کہ ساری دنیا کے صارفین کو کم سے کم داموں میں چیزیں حاصل ہوں اور ان ہی مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ 75 سال سے یہ ایک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ہمہ رخی تجارت جن کی نمائندگی اور قیادت امریکہ کیا کرتا تھا۔ امریکہ نے اس کی کامیابیوں کو بھی تسلیم کیا مگر اب ٹرمپ نے اسے بالکل اُلٹ دیا ہے۔ آپ یہ مان کر چلئے کہ پچھلے 75 سال کی امریکہ کی جو کامیابی تھی جو ان کے کارنامے تھے ان کارناموں کو اُنھوں نے بالکل اُلٹا کردیا اور ان کی منطق یہ ہے کہ اس سے امریکہ کو فائدہ نہیں ہورہا ہے بلکہ نقصان ہورہا ہے۔ حالانکہ کوئی ماہر اقتصادیات یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے کہ اس سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے کیوں کہ اگر امریکہ کو فائدہ نہیں ہورہا ہوتا تو آپ کو اعداد و شمار کے ذریعہ بتا سکتا ہوں کہ 1970 ء میں امریکہ کا جی ڈی پی ایک کھرب ڈالرس سے کچھ زیادہ تھا، آج اس کا جی ڈی پی 28 کھرب ڈالر ہے۔ اس کا مطلب 1970 ء سے ابھی تک امریکہ کے جی ڈی پی اور معیشت میں بہت زیادہ ترقی ہوئی، کہاں ایک کھرب ڈالرس سے کچھ زیادہ اور کہاں 28 کھرب ڈالرس، مطلب امریکی جی ڈی پی / معیشت میں 27 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا (امریکہ میں فی کس اوسط آمدنی 80 ہزار ڈالرس ہے) جبکہ ہمارے ملک میں فی کس اوسط آمدنی صرف 2400 روپئے ہے۔ اب ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ نظام کو ہمیں پوری طرح اُلٹنا پڑے گا۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ آج کی تاریخ میں امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے مگر ان کو چین، ہندوستان اور دوسرے ملکوں کی جی ڈی پی میں تیزی سے اضافہ ٹرمپ کے لئے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ 2020 ء میں امریکی معیشت کا حجم 10کھرب ڈالر تھا، آج کی تاریخ میں امریکی معیشت 10 کھرب ڈالرس سے بڑھ کر 28 کھرب ڈالرس ہوگئی اور چین کی معیشت ایک کھرب ڈالرس سے بڑھ کر 19 کھرب ڈالرس ہوگئی۔ تو اب یہ سوچ کے چلئے کہ جو 25 سال پہلے امریکہ کی معیشت کا حجم چین سے کہیں زیادہ بڑا تھا، دس گنا بڑا تھا اور آج چین کی معیشت کا حجم کافی بڑھ کر 19 کھرب ڈالرس پر آگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین امریکہ کی جی ڈی پی کے بالکل قریب آگیا۔ پہلے جو بہت زیادہ فرق تھا، وہ اب گھٹ گیا ہے۔ مثال کے طور پر Apple جو دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو آئی فون بناتی ہے اور آئی پیاڈ بناتی ہے اور جو Apple Lap Top بناتی ہے، ان کی سب سے بڑی فیاکٹری چین میں ہے اور زیادہ تر وہ چین میں اسمبل ہوتا ہے اور پھر امریکہ میں اسے درآمد کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے جس طرح کا ٹیکس چین پر عائد کیا ہے، اگر 54 فیصد ٹیکس لگ جائے تو Apple بالکل غائب ہوجائے گا۔ امریکہ میں اُس کے پراڈکٹس کو کون خریدے گا۔ ایپل کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔ اس طرح اور چیزوں کے بھی دام بڑھ جائیں گے جیسا کہ ہندوستان، امریکہ کو سب سے زیادہ ڈرگس بھیجتا ہے، ہماری جو بڑی کمپنیاں سپلا، ڈاکٹر ریڈیز ہوئی وہ جانی مانی کمپنیاں ہیں۔ ساری دنیا میں ویکسنس کے علاوہ ادویات فراہم کرتی ہیں۔ کوویڈ کے دوران بھی ان کمپنیوں کی خدمات غیرمعمولی رہیں۔ تھیروپٹک ڈرگس کے معاملہ میں تو ہندوستانی کمپنیوں نے انسانیت کی زبردست مدد کی۔ امریکہ کی جو مارکٹ ہے اس میں ہندوستانی کمپنیاں درآمدات کرتے ہوئے 35 فیصد حصہ ادا کرتی ہیں۔ ٹرمپ صاحب نے یہ کہہ دیا کہ اب یہ ٹیکس ادویات پر بھی عائد کیا جائے گا۔ انڈین ڈرگس پر لگے گا اور ادویات پر بہت زیادہ ٹیرف عائد کئے جائیں گے۔ اب ہندوستانی فارما شعبہ کو بھی اس کا نقصان ہوگا۔ اس کے ساتھ ہندوستان کی Gems اور جیویلری درآمد کی جاتی ہے، امریکہ کو اس معاملہ میں بھی ہندوستان کو نقصان ہوگا۔ اب تو ٹکسٹائیل اسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر کا کہنا ہے کہ ٹیکس عائد ہونے کے بعد ہندوستان پر جو 26 فیصد TARIFF لگا ہے ہماری Shipment جو امریکہ جارہی تھی وہاں سے لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ آپ ڈسکاؤنٹ دیجئے تو اُنھوں نے مودی سرکار سے گذارش کی کہ آپ ٹرمپ انتظامیہ سے بات کریں۔ ٹرمپ کے عجیب و غریب فیصلے کے اثرات سارے ملکوں پر پڑیں گے۔ اُنھوں نے ایک ایسا ٹیرف لگایا ہے جو سب کے لئے نقصاندہ ہے، اس سے کوئی نہیں بچے گا۔ ہندوستان جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا مارکٹ ہے اور ہندوستان میں 25 ، 30 بڑی بڑی ریاستیں ہیں، دیکھا جائے تو وہ ایک ایک یوروپی ملک کے برابر ہے چاہے آپ ٹاملناڈو لے لیں یا شمال میں پنجاب کو لیں، ہریانہ یا یوپی اور کرناٹک پر بڑی معیشتیں ہیں۔ تعمیری شعبہ، زرعی شعبہ وغیرہ میں زیادہ فرق نہیں آئے گا مگر باقی چیزوں پر فرق پڑے گا۔ آئی ٹی سیکٹر پر اثر پڑے گا۔ اگر امریکی معیشت انحطاط کا شکار ہوگی تو ہندوستانی کمپنیوں کا کاروبار متاثر ہوگا۔ ہندوستان کا اگر عالمی تجارتی حجم دیکھیں تو وہ ہماری جی ڈی پی کا تقریباً 50 ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کافی حد تک گلوبل ٹریڈنگ سے جڑا ہوا ہے۔