ٹکنالوجی نہیں تربیت خراب ہوتی ہے

   

محمد مصطفی علی سروری
رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ شہر میں سردیوں کا موسم اپنے عروج پر تھا اور اتنی رات کو کسی مہمان کے بھی گھر آنے کی امید نہ تھی لیکن گھر کے دروازے کی دستک نے گھر والوں کی نیند خراب کردی۔ دروازے پر لگے عدسے سے دیکھا تو پتہ چلا کہ دودھ والا اور محلے کا کچرا اٹھانے والا دونوں کھڑے تھے۔ گھر کے نوجوان نے دروازہ کھولا تو ایک دم سے شراب کی بو آنے لگی۔ گھر والے سمجھ گئے کہ دودھ والا اور کچرے والا دونوں شراب کے نشے میں دھت ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں آئے اور اتنی رات کو کیا کام ہے تو دونوں نے ایک آواز میں کہا کہ وہ لڑکی کہاں ہے جو اس گھر میں رہتی ہے۔ نوجوان نے پہلے تو ان دونوں کو پیچھے دھکیلا۔ پھر ایک موٹی سی گالی دے کر بولا کہ کیوں دماغ جگہ پر ہے یا نہیں۔ گھر کی عورتوں نے اس طرح کی بات چیت سن کر گھر کے دیگر مرد حضرات کو بھی جگایا۔ ادھر بلڈنگ کا واچ مین بھی دوڑا دوڑا آیا۔ کہنے لگا کہ صاحب میں نے بلڈنگ میں اندر آنے سے منع بھی کیا لیکن یہ لوگ مجھے دھکیل کر گرادیئے اور ادھر گھس کر آگئے۔ آپ کے فلیٹ کی کسی لڑکی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
گھر کے بڑے مرد حضرات باہر نکلے اور باضابطہ طور پر سب نے دودھ والے اور کچرے والے کی اچھی خاصی دھلائی کردی۔ مار کھانے کے بعد بھی ان دونوں کا نشہ اترا تو نہیں لیکن کچھ کم ضرور ہوا۔ تب ایک اور پڑوسی فلیٹ والے صاحب نے مشورہ دیا کہ آخر کو ان سے بات بھی تو کرلو بعد میں پولیس کو بلانا۔ اس وقت تک گھر کے ایک بچے نے پولیس کو بھی فون کردیا تھا۔ خیر جب دودھ والے کو جو تھوڑا سا صحیح بات کرنے کے موقف میں تھا پوچھا گیا کہ ارے کیا معاملہ ہے اور وہ گھر کی بچی کو کیوں بلانا چاہتا ہے تو دودھ والے نے بتلایا کہ ارے صاحب یہ کچرے والا مجھے ستارہا ہے کہ اس فلیٹ کی لڑکی نے اس کے ساتھ ویڈیو بنایا تھا۔ ہم لوگ ادھر بیٹھ کر اپنی پارٹی کر رہے تھے تب یہ جھگڑا کرنے لگا کہ بی بی اس سے محبت کرتی ہیں۔ تب میں نے کہا کہ نہیں بی بی تو مجھ سے محبت کرتی ہیں کیونکہ انہوں نے میرے ساتھ ویڈیو بنایا تھا۔ ہماری لڑائی کے دوران ہی طئے ہوا کہ ہم بی بی کے گھر جاکر خود پوچھ لیتے ہیں۔
قارئین یہ قصہ پڑوسی ریاست کرناٹک کے ایک شہر سے ہے جہاں سے ہمارے ایک قاری نے یہ تفصیلات ہمیں بھیج کر درخواست کی کہ اس موضوع پر والدین اور سرپرستوں کی توجہ مبذول کروائی جائے کہ TikTok نے کس طرح سے مسلم گھرانوں میں بھی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل نئی نسل کو درپیش ہیں۔ ان پرتحقیق ہونی ہے۔ ان مسائل کا حل نہ کتابوں میں ملے گا اور نہ کہیں اور۔
یہ تو پڑوسی ریاست کرناٹک سے آنے والی خبر تھی۔ ایک خبر خود ہماری ریاست تلنگانہ کے ضلع ورنگل سے موصول ہوئی ہے۔ TNM کی نمائندہ پرینکا رُچی نے 11؍ جنوری 2020 کو ایک ایسی خبر دی ہے کہ پڑھ کر دل دہل جائے۔ ایک طرف پورے ملک کے مسلمان گویا اپنے وجود اپنی شہریت اور اپنے ہندوستانی ہونے کے موضوع پر پریشان ہیں وہیں جمعہ 10؍ جنوری 2020 کو ایک 25 سال کا مسلم نوجوان ورنگل سنٹرل جیل جاکر وہاں کے عہدیداروں کو بتلاتا ہے کہ اس نے ایک لڑکی کا قتل کردیا ہے کیونکہ اس لڑکی پر اس کو شک تھا کہ وہ کسی دوسرے شخص سے تعلقات رکھتی ہے۔ قارئین یہاں پر ہم مسلم نوجوان کا نام درج نہیں کر رہے ہیں۔لیکن تلگو اور دیگر زبانوں کے میڈیا میں اس مسلم نوجوان کا نام واضح طور پر بتلایا گیا۔ TNM کی رپورٹ کے مطابق جو نکتہ سب سے اہم اور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ مسلم نوجوان نے جس لڑکی کا قتل کردیا تھا اس کا نام منی گلا ہریتا تھا جو پرتاپ اور رینو کی بیٹی تھی۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی اور دی ہنس انڈیا کی رپورٹ میں بتلایا گیا کہ مسلم نوجوان اور غیر مسلم لڑکی نے گریجویشن کی تعلیم ایک ساتھ ہی حاصل کی تھی اور دونوں کے درمیان دوستی کے بارے میں ہر دو گھر والوں کو معلوم تھا۔ ہریتا کے والدین نے جب اس کی شادی کے لیے لڑکا تلاش کرنا شروع کیا تو ہریتا نے اپنے والدین کو بتلادیا تھا کہ وہ ایک مسلم نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے اور ہریتا کے والدین اس رشتہ کے لیے آمادہ ہوگئے تھے اور جلد ہی مسلم لڑکے کے والدین سے اس تعلق سے بات کرنے والے تھے۔ جمعہ 10؍ جنوری کو ہریتا اپنے والدین کو یہ کہہ کر گھر سے نکلی کہ وہ کسی کام سے باہر جارہی ہے۔ ہریتا جب اپنے مسلم دوست کے روم پر پہنچی تو وہاں پولیس کے مطابق ان دونوں کے درمیان بحث و تکرار ہوئی جس کے بعد مسلم نوجوان نے ہریتا کا گلہ کاٹ کر قتل کردیا اور ورنگل سنٹرل جیل جاکر اپنے جرم کا اعتراف کرلیا جہاں پر جیل کے اہلکاروں نے ورنگل صوبیداری پولیس کو اطلاع دی اور پھر پولیس نے اس نوجوان کو گرفتار کرلیا۔
قارئین بظاہر یہ ایک واقعہ نظر آتا ہے لیکن ذرا تصور کیجیے۔ اس واقعہ سے جو اثرات دیگر برادران وطن تک پہنچے ہیں اور پھر اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں اندازہ لگایئے۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کو دستور کی روح کے تحفظ کی جو لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے اس میں دیگر برادران وطن کی شرکت اور ان کا ساتھ کس قدر اہمیت رکھتا ہے اور میڈیا کی غیر ذمہ داری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جتنی دیر تک ٹیلی ویژن چیانلس نے اس خبر کو چلایا ہے اور جس غیر ذمہ دارانہ اندازمیں طرح طرح سے اس خبر کو کئی مرتبہ پیش کیا، اس پس منظر میں ناظرین کے ذہنوں پر کچھ اچھے تاثرات اور خیالات نہیں ابھرتے۔
جو مسلمان جذباتی نعرہ لگاکر خوش ہولیتے اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیںمیرا ان سے ہی سوال ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو درپیش نت نئے مسائل کا حل کون ڈھونڈے گا اور ورنگل کے مسلم نوجوان نے جو حماقت کی ہے ایسی حماقت دوسرا کوئی اور کہیں بھی نہ کرے اس کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ کیا اس طرح کے واقعات کو اکا دکا واقعات کہہ کر خاموشی اختیار کرلی جائے؟ کیا اس طرح کی خاموشی اختیار کرلینے سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ایک جانب مسلم نوجوان ہوں یا بڑے بزرگ حضرات رجسٹرار آفس میں جب ایک لڑکی غیر مسلم لڑکے سے شادی کی نوٹس دیتی ہے تو بڑے بے چین ہوجاتے ہیں۔ لڑکی کو ان کے والدین اور گھر والوں کو یہاں تک کہ اڑوس پڑوس کے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اس مسلم لڑکی کی ہندو لڑکے کے ساتھ شادی رکوادو۔ لڑکی کی کونسلنگ کرو بات کرو وغیرہ وغیرہ۔
قارئین ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے گا کہ مسلم لڑکا غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو لڑکی والوں کے جذبات کیسے ہوں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تو ہریتا کے والدین اپنی لڑکی کی شادی مسلمان لڑکے سے کروانے کے لیے بھی آمادہ تھے۔ لیکن مسلم لڑکا کسی بات پر جھگڑا کر کے غصہ کی حالت میں غیر مسلم لڑکی کا گلہ کاٹ کر قتل کردیتا ہے تو کیا ہوسکتا ہے اور ان لوگوں کے جذبات کیسے ہوں گے جن سے اس لڑکی کا تعلق تھا۔ میڈیا نے کیسے کیسے طریقہ سے لوگوں کے جذبات سے کھیلا ہوگا؟
TikTok ہمارے لڑکے لڑکیوں کو خراب کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ سے ہمارے بچے خراب ہو رہے ہیں۔ لیکن اسی انٹرنیٹ سے دوسرے بچے ترقی کر رہے ہیں۔ اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے 9؍ جنوری 2020 کو حیدرآباد سے کولی مکھرجی کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ سدھارتھ نائیر سات سال کا ایک اسکولی طالب علم ہے۔ اس لڑکے کو جب والدین نے صحت مند کھانے کی عادت ڈالنے کی کوشش کی اور اسکول میں اس کو انٹرنیٹ کا تعارف سکھلایا گیا تو اس کم عمر طالب علم نے ایک Tiffin Planned Application کا تیار کرلیا جس کی مدد سے صحت مند غذائی عادتیں اپنائی جاسکتی ہیں اور یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ کونسا کھانا اپنے اندر کتنی غذائیت رکھتا ہے اور صحت کے لیے کس قدر توانائی فراہم کرتا ہے۔
قارئین ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کو برا بولنا حل نہیں۔ ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کے صحت مند استعمال کی تربیت دینا ضروری ہے۔ کیا ہم مسلمان اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری قبول کرنے تیار ہیں یا نہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کے کام میں مدد فرما۔ ہمیں اور ہماری اولاد کو صراط مستقیم پر چلا۔ دنیا و آخرت میں ہر طرح کی رسوائی سے ہماری حفاظت فرما اور امت مسلمہ کو سرخروئی عطا فرما ۔ (آمین یا رب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]