واشنگٹن۔ 9 نومبر (ایجنسیز) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو ٹیرف سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے زیادہ تر شہریوں کو کم از کم 2 ہزار ڈالر بطور ڈیویڈنڈ ادا کیے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اتوار کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ امریکیوں کو ڈیویڈنڈ ادا کرنے کا اعلان کیا تاہم یہ واضح کردیا کہ زیادہ آمدنی والے امریکی اس سے محروم رہیں گے۔ ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم کھربوں ڈالر حاصل کررہے ہیں اور بہت جلد اپنے 37 کھرب ڈالر کے بھاری قرضے کی ادائیگی شروع کریں گے۔ ہر شخص کو (زیادہ آمدنی والے افراد کے علاوہ) کم از کم 2 ہزار ڈالر ادا کیے جائیں گے‘۔ میڈیا کے مطابق فی الحال امریکی سپریم کورٹ ٹرمپ کی جانب سے نافذ کردہ تجارتی ٹیرف کے قانونی جواز کا جائزہ لے رہی ہے، اس سے قبل ماتحت عدالتوں نے ان میں سے کئی محصولات کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ اکتوبر میں ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں عوام کیلئے ایک سے 2 ہزار ڈالر کی رقم تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے نافذ کردہ محصولات سے امریکہ کو سالانہ ایک کھرب ڈالر سے زائد آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کی قانونی شکستنیشنل گارڈ کو پورٹ لینڈ بھیجنے کا حکم غیرقانونی قرارواشنگٹن،9 نومبر(یو این آئی ) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑی قانونی شکست سامنے آئی ہے ، جب وفاقی جج نے قرار دیا کہ انہوں نے نیشنل گارڈ فوجیوں کو پورٹ لینڈ، اوریگون بھیجنے کا حکم غیر قانونی طور پر جاری کیا۔ یہ فیصلہ امریکی ڈسٹرکٹ جج کیرن امیرگٹ نے جمعہ کو سنایا، جس میں کہا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس فوج کو اندرونِ ملک احتجاج روکنے کے لیے استعمال کرنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پورٹ لینڈ میں “بغاوت” یا ایسی کوئی صورتحال موجود نہیں تھی جس کے تحت وفاقی قانون لاگو نہ کیا جا سکے ۔ جج کے مطابق احتجاج کے دوران معمولی نوعیت کی جھڑپیں ضرور ہوئیں، لیکن وہ اس سطح کی نہیں تھیں کہ فوجی طاقت استعمال کی جائے ۔ یہ فیصلہ ٹرمپ کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے ، کیونکہ وہ ڈیماکریٹک قیادت والے شہروں جیسے لاس اینجلس، شکاگو اور واشنگٹن میں بھی اسی حکمت عملی کے ذریعے فوجی تعیناتی کے خواہاں تھے ۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایبیگیل جیکسن نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اختیارات کے تحت وفاقی افسران کے تحفظ کے لیے درست اقدام کیا اور وہ امید رکھتے ہیں کہ اعلیٰ عدالت میں فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔